عمران خان کی یہ پریس کانفرنس معمول سے ہٹ کر تھی۔ ماضی میں وہ متعدد مواقع پر مختلف کرپشن معاملات کے ساتھ نتھی کیے جاتے رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی پریس کانفرنس کر کے کسی بات کا جواب، یا کسی کی صفائی نہیں دی۔ جہانگیر ترین، زلفی بخاری، علیم خان، یہاں تک کہ خود عمران خان کی بہنوں پر بھی الزامات لگے تو انہوں نے خود آ کر کبھی ان کا دفاع نہیں کیا۔ بہت ہوا تو ایک آدھ سوال کسی انٹرویو میں ہو گیا اور اس کا دوٹوک جواب دے دیا کہ وہ بہت اچھا آدمی ہے لیکن اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے اور جواب بھی خود ہی دے گا۔ تاہم، یہاں معاملہ مختلف رہا۔
وجہ یہ ہے کہ فرح خان کا نام روزِ اول ہی سے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے۔ چاہے پنجاب میں عثمان بزدار کی وزارتِ اعلیٰ کی بات ہو یا آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم کی، ایسی رپورٹس بار بار منظر پر آتی رہی ہیں کہ فرح خان نے ہی یہ نام بشریٰ بی بی کے ذریعے عمران خان تک پہنچائے اور عمران خان نے ان کی نامزدگی کی۔ فرح خان کے شوہر احسن جمیل گجر کا کہنا ہے کہ وہ یا ان کی اہلیہ ایسی کسی پوزیشن میں ہی نہیں تھے کہ وہ سفارشیں کر کے اتنی بڑی بڑی نامزدگیاں کروا سکیں لیکن ایسی رپورٹس بہرحال گردش کرتی رہی ہیں۔
عمران خان نے فرح بی بی کے دفاع میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان پر نیب کی جانب سے کیس بنایا گیا ہے کہ ان کے اثاثے ان کی آمدن سے زیادہ ہیں لیکن یہ کیس صرف پبلک آفس ہولڈرز پر بن سکتا ہے۔ تاہم، فرح خان کی جانب سے ایسا کوئی دفاع سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کے شوہر کا کہنا ہے کہ ان کو نیب نوٹس تاحال موصول نہیں ہوا۔ عمران خان نے ان کے ذرائع آمدن بھی بتائے کہ فرح خان تو ریئل اسٹیٹ کا کام کرتی ہیں اور اس میں بہت پیسہ لوگوں نے بنایا ہے، اور یہ غیر قانونی نہیں۔ یہ بھی انہوں نے فرح خان سے پہلے ہی ان کے ذرائع آمدن آشکار کر دیے ہیں۔ عمران خان کو فرح کا اتنا جی دار دفاع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے، اس حوالے سے کچھ مزید اطلاعات بھی ہیں اور یہ بہت ہی تگڑے کاغذات کی بنیاد پر ہیں۔
القادر یونیورسٹی کی زمین فرح، بشریٰ بی بی اور عمران خان کے نام
2019 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے القادر یونیورسٹی کے نام سے ایک پروجیکٹ لانچ کیا جس کی افتتاحی تقریب میں بھی وہ نومبر 2021 میں تقریر کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں تصوف اور سائنس پر تحقیق کی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے 469 کنال زمین حاصل کی گئی اور یہ زمین کسی اور نے نہیں بلکہ ملک ریاض نے دی۔ چند روز قبل سماء ٹی وی پر ندیم ملک کے پروگرام میں رپورٹر قاسم عباسی اب یہ کاغذات سامنے لائے ہیں کہ یہ زمین ملک ریاض کی جانب سے ٹرسٹ کو دی گئی تھی اور اس ٹرسٹ بورڈ میں ابتداً چار ارکان تھے جن میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ زلفی بخاری اور بابر اعوان بھی شامل تھے۔ بعد ازاں اس میں سے بابر اعوان اور زلفی بخاری کو نکال دیا گیا اور فرح خان اور ڈاکٹر عارف بٹ اس ٹرسٹ کے بورڈ کی ارکان بن گئے جس کے نام ملک ریاض نے زمین کی تھی۔ عارف بٹ لمز یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ہیں۔
https://twitter.com/nadeemmalik/status/1519023218711207936
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ملک کے وزیر اعظم کے نام سے بنے ٹرسٹ سے کھڑی ہوئی یونیورسٹی کو تاحال پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیا۔ باوجود اس کے کہ یونیورسٹی کی جانب سے درخواست دی گئی تھی۔ فی الحال اس یونیورسٹی میں صرف 37 طالبِ علم زیرِ تعلیم ہیں۔
ملک ریاض پر عمران خان حکومت کی نوازشیں
ملک ریاض پاکستان کے ان کاروباری حضرات میں سے ہیں جنہیں حکومتیں بنانے اور گرانے کے عمل میں بھی شاملِ حال رکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ یا پاکستان تحریکِ انصاف، کسی جماعت کا ان پر بس نہیں چلتا۔ تمام جماعتوں سے ہی یہ مراعات لیتے رہے ہیں۔ تمام مراعات کی تفصیل تو یہاں دینا ممکن نہیں لیکن عمران خان دورِ حکومت میں ان کو دو بڑے فائدے جو حکومت کی طرف سے دیے گئے، ان میں سے ایک تو 2018 میں ان کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی پر دیے گئے فیصلے کے حوالے سے ہے جس کے مطابق ملک ریاض کو 460 ارب روپے کا جرمانہ کیا گیا تھا۔ یہ رقم انہوں نے 2026 تک مختلف قسطوں میں واپس کرنا تھی۔ لیکن مئی 2021 میں اٹارنی جنرل کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ان سے قسطوں میں رقم نہ لی جائے بلکہ یہ رقم بعد ازاں یک مشت لے لی جائے تاکہ وہ مزید کاروبار کو وسعت دیتے رہیں اور اس رقم کو کاروبار میں لگا کر اس سے سود حاصل کیا جاتا رہے اور سات سال میں وہ رقم سپریم کورٹ کو مکمل یک مشت واپس کر دیں گے۔
دوسرا فائدہ ملک ریاض کو یہ دیا گیا ہے کہ برطانیہ میں منی لانڈرنگ کرتے پکڑے جانے کے بعد انہوں نے وہاں کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ ایک عدالت سے باہر معاہدہ کیا جس کے تحت انہوں نے ایک عدد گھر جو ان کی ملکیت تھا، نیشنل کرائم ایجنسی کو دیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم جو پاکستانی 39 ارب روپے بنتی تھی، حکومتِ پاکستان کو واپس کی گئی لیکن یہ رقم ریاستی خزانے کی بجائے سپریم کورٹ کے ایک بینک اکاؤنٹ میں داخل کر دی گئی اور ملک ریاض نے دعویٰ کیا کہ یہ رقم اسی 460 ارب روپے کے جرمانے کی قسط کے طور پر جمع کروائی گئی ہے۔ ملک ریاض کے اس دعوے کی حکومت نے کبھی تردید نہیں کی۔ اس وقت کے مشیر احتساب شہاز اکبر نے تصدیق کی کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی ہے اور مزید کوئی بھی تفصیل دینے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ برطانوی ادارے کے ساتھ ہوئے معاہدے کے تحت وہ اس ڈیل کی مزید تفصیلات دینے سے قاصر ہیں۔
ملک ریاض کی جانب سے یونیورسٹی کے لئے یہ زمین دیے جانا، ایک ایسے ٹرسٹ کو جس میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور فرح خان تینوں موجود ہیں اور یونیورسٹی کو ایک ارب روپے سے زائد کی گرانٹ کے باوجود تاحال ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہونا بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ عمران خان اور فرح بی بی سے مزید وضاحتیں بھی طلب کی جائیں گی اور شاید کچھ مقدمات بھی بنیں۔ کیا وہ ان سوالات کے جوابات دے پائیں گے؟ یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ یاد رہے کہ فرح خان کے اثاثوں میں گذشتہ تین برس میں 65 کروڑ روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔