کوہاٹ سے آئے ہوئے عبداللہ نامی شخص نے سٹال کی ادائیگی کی رسید دیکھاتے ہوئے بتایا کہ ان سے جمعیت علمائے اسلام کے عہدیدار نے پانچ ہزار روپے وصول کئے ہیں۔ جب تک مارچ جاری رہے گا تب تک یہ جلسہ گاہ میں کھانے کا سٹال لگانے کے مجاز ہوں گے۔
سٹال پر فروخت ہونے والی اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے جمیعت علمائے اسلام کے کارکنان (سالار) وقفے وقفے سے سٹال کا جائزہ لیتے ہیں اور انہیں مقررہ قیمتوں پر اشیا فروخت کرنے کا پابند بناتے ہیں۔ مقررہ قیمت سے زائد پر اشیا فروخت کرنے والے سٹال ہولڈرز کو جلسہ گاہ سے باہر نکالنے کی تنبیہ کی جاتی ہے۔
محمد عامر نامی نوجوان نے نیا دور کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سٹال ہولڈرز بنیادی طور پر جلسہ کے شرکا کو سہولت فراہم کر رہے ہیں جبکہ منتظمین ہماری معاونت کرنے کی بجائے نہ صرف ہم سے سٹال فیس وصول کر رہے ہیں بلکہ مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت میں اشیا فروخت کرنے پر بھی مجبور کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کوہاٹ سے سامان لانے کے لئے گاڑی کو 7 ہزار روپے کرایہ، جلسہ میں سٹال لگانے کی فیس 5 ہزار اور سامان واپس کوہاٹ تک پہنچانے کے لئے 7 ہزار روپے خرچ کرنا ہوں گے، یوں 20 سے 25 ہزار روپے خرچ کرنے کے بعد ہم مجبوراً منتظمین کی جانب سے فراہم کردہ قیمتوں پر اشیا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔