مولانا فضل الرحمان نے”اداروں“ کو دو دن کی مہلت دیدی

12:55 PM, 1 Nov, 2019

نیا دور
مولانافضل الرحمان نے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے، ملک میں عدل و انصاف کا نظام چاہتے ہیں، صرف پاکستان کے عوام کو ملک پر حکمرانی کا حق ہے،2018 کےانتخابات فراڈ تھے اس کے نتائج کو ہم نے تسلیم نہیں کیا۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ معیشت تباہ ہوئی توسویت یونین اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکا، حکومت کو مزید مہلت نہیں دےسکتے، حکمرانوں نے آج کشمیریوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں کو طاقتور مگر غیرجانبدار دیکھنا چاہتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کا تحفظ ادارے کر رہے ہیں، دو دن کی مہلت ہے پھر نہ روکا جائے کہ ہم اداروں کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں، عوام کا سمندر قدرت رکھتا ہے کہ پی ایم ہاؤس میں جا کر وزیراعظم کو گرفتار کرے۔

انہوں نے کہا کہ میں میڈیا کے ساتھ کھڑا ہوں اور میڈیا پرسن و مالکان کے ساتھ میری ہمدردیاں موجود ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ میڈیا سے پابندی فوراً اٹھالی جائے اگر پابندی نہیں اٹھائی تو پھر ہم بھی کسی چیز کے پابند نہیں رہیں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میری بات نواز شریف نے بھی سن لی ہے، آصف علی زرداری نے بھی سن لی ہے اور ہم جنہیں سنانا چاہ رہے ہیں وہ بھی سن رہے ہیں۔


مولانا فضل الرحمان نے جلسے سے شرکاء سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ استعفے سے کم پر مانو گے؟ جس پر شرکاء نے یک زبان ہوکر ’نہیں‘ کے نعرے لگائے۔


سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ اب فیصلہ ہم نہیں کریں گے بلکہ عوام کریں گے کیوں کہ ووٹ عوام کی امانت ہوتا ہے اور عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے لہٰذا فیصلہ بھی عوام کو ہی کرنا ہے۔


اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ  ہم اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، ہم اداروں کےساتھ تصادم نہیں چاہتے، لیکن ہم اداروں کو غیر جانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں، عوام کا فیصلہ آچکا ہے، حکومت کو جانا ہی جانا ہے۔

آخری میں انہوں نے شرکاء سے کہا کہ وہ تحمل کے ساتھ دھرنے میں موجود رہیں، اپوزیشن جماعتیں آپس میں رابطے میں ہیں اور لمحہ بہ لمحہ صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے، جو بھی فیصلہ ہوگا شرکاء کو آگاہ کیا جائےگا۔


مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر آئندہ دو دن میں وزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو آئندہ کا لائحہ عمل باہمی مشاورت سے طے کریں گے۔


بلاول بھٹو کا خطاب

اس سے قبل بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 2008 اور 2013 میں فوج پولنگ اسٹیشن میں تعینات نہیں تھی 2018 میں صرف عمران خان کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا۔ ایسے اقدامات سے ادارے متنازع ہوتے ہیں۔

چئیرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ یہ فوج صرف عمران خان کی نہیں بلکہ میری اور پورے ملک کی فوج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ جمہوریت ہے جہاں میڈیا پر قدغنیں ہیں عوام آزاد نہیں۔ یہاں کلبھوشن یادھو اور ابھی نندن سمیت دہشت گردوں کو ٹی وی پر دکھانے کی اجازت ہے لیکن سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔

کشمیر کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان کشمیر کاز پر تاریخی حملہ کیا ہے۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ مقتدر حلقوں نے عمران خان کی بے مثال حمایت کی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے مقابلے میں اگر مقتدر حلقوں نے 10 فی صد سپورٹ متحدہ اپوزیشن کو دی ہوتی تو ملک کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیتے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی آئینی حق ہے۔ اگر عمران خان مزید اقتدار میں رہے تو سب پچھتائیں گے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب تک عمران خان اس ملک کے عوام کی جان نہیں چھوڑتے اس وقت تک ہم عمران خان کی جان نہیں چھوڑیں گے۔

شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو کامیاب آزادی مارچ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے دلیری کا مظاہرہ کیا۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما نیر حسین بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں مارچ کو کوریج نہیں دی جا رہی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ نیر حسین بخاری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت سے عوام کو نجات دلا کر ملک میں 1973 کا آئین اصل حالت میں بحال کرائیں گے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ جب تک عمران خان اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو جاتے اس وقت تک شرکا واپس نہیں جائیں گے۔

پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کا 'آزادی مارچ' دارالحکومت اسلام آباد میں موجود ہے جہاں متحدہ اپوزیشن کا جلسہ جاری ہے۔
مزیدخبریں