اپنے بیان میں جواد نقوی کا کہنا تھا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ جب خود آپ احتجاج کریں تو اسلام آباد میں آ کر دھرنا دیں اور اس کو کہیں کہ یہ جمہوری حق ہے، اور یہ حق آپ کو دیا گیا۔ آپ کی حکومت میں کسی کو اجازت نہیں ہے، نہ جلوس نکالنے کی، نہ دھرنا دینے کی؟
"جس (پارٹی) سربراہ نے کوئی جرم ہی نہیں کیا، اس کو ویسے ہی بے گناہ آپ نے پکڑا ہوا ہے، اس کی آواز اٹھانے بھی نہ دیں، یہ خطرناک کام ہے"۔
وہ یہاں تحریکِ لبیک پاکستان کے احتجاج کے حوالے سے بار کر رہے تھے جو اس وقت بھی سڑکوں پر ہے اور باوجود حکومت کے ساتھ ہوئے معاہدے کے وزیر آباد میں اس کے کارکنان بڑی تعداد میں بیٹھے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ جب تک تمام مطالبات پورے نہیں ہوں گے وہ اٹھ کر نہیں جائیں گے۔
جواد نقوی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے تشدد کا رجحان پیدا ہونا ٹھیک نہیں۔ ان کا حق ہے کہ وہ احتجاج کریں اور آپ کا فرض ہے کہ اس احتجاج کو سنیں۔
حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ خبریں آ رہی ہیں کہ مارا ماری پہلے ہی شروع ہو چکی ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں کے باعث حقائق سامنے نہیں آ رہے۔ اگر حکومت نے یہ حماقت کی، یہ غلطی کی، اس دھرنے کو اسلحے سے نعوذ باللہ قتلِ عام کیا، مارا پاکستانیوں کو، اس دھرنے کے شرکا کو تو تمام مذہبی جذباتی طبقہ میدان میں آ جائے گا، پھر یہ دیوبندی، بریلوی کی تفریق ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت تبدیل کر دو تو بہتر ہے، خود فوج آ جائے، فوج کنٹرول لے لے، معاملات کو سلجھائے۔
علامہ جواد نقوی قم سے فارغ التحصیل ہیں اور لاہور میں جامعہ عروۃ الوثقیٰ جب کہ گوجرانوالہ میں جامعہ جعفریہ مدرسے کے پرنسپل ہیں۔
پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ علما فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دے رہے ہوں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے علما عوام کو سیاسی شعور دینے کی بجائے ان پر آمر مسلط کر دینے کو ہی ملکی مسائل کا حل سمجھتے آئے ہیں۔ اس سے ان کے اپنے علمی قد کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں فوج کو اقتدار کی دعوت دینا ہی ان کے نزدیک مسائل کا حل ہے باوجود اس حقیقت کہ پاکستان میں فوج چار مرتبہ اقتدار میں رہ چکی ہے اور ہر بار ملک کو پہلے سے زیادہ برے حالات میں چھوڑ کر اقتدار سیاستدانوں کے حوالے کیا ہے۔