پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم عدالتی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک دھچکا ہے — انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ، 21 اکتوبر 2024
پاکستان کی حکومت نے آئین میں ایک متنازعہ ترمیم منظور کی ہے جس پر عدلیہ کی طاقت اور آزادی کو کمزور کرنے، ملک کی جمہوریت کو مزید بحران میں ڈالنے کا الزام لگایا گیا ہے — پاکستان کی حکومت نے ایم پی ایز کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد عدلیہ کے اختیارات کو روک دیا، دی گارڈین، 21 اکتوبر 2024
مقننہ خودمختار ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی بالادستی ہر چیز سے بالاتر ہے — قانون ساز درحقیقت آئین کے فریم ورک کے اندر عوام کی طرف سے دیے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہیں — آئین سپریم ہے، فرائیڈے ٹائمز، مارچ 31، 2023
1973 کا آئین ریاست کے تین ستونوں، مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے۔ ٹرائیکوٹومی (trichotomy) کے اصول کا مقصد اداروں کی ایک دوسرے کے دائرہ اختیار میں عدم مداخلت ہے، لیکن ہماری تاریخ اور موجودہ آئین کے 50 سالوں میں اس کی کئی بار خلاف ورزی ہوئی ہے۔ سپریم آئینی اقدامات اور ماضی میں عدلیہ کی طرف سے ان کی توثیق انتہائی افسوس ناک ہے — آئین، ٹرائیکوٹومی اور بحران، بزنس ریکارڈر، اپریل 7، 2023
9 اور 10 مئی 2023 کے واقعات میں احتجاج کرنے والے شہریوں کے مقدمے کی سماعت شہریوں پر لاگو متعلقہ فوجداری قوانین کے تحت سختی سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن ریکارڈ پر ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے یہ بھی کہا جا سکے کہ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو نقصان پہنچانے کی نیت یا مقصد سے ایسا کام کیا یا ان کی مبینہ کارروائیوں کا تعلق مسلح افواج کے ایسے کام یا معاملات سے ہے جو بنیادی کام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کرنے کے لیے تاکہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (1)(d)(ii) کے دائرہ کے اندر آئے — جسٹس یحییٰ آفریدی 2023 کے سی پی نمبر 24 میں (جواد ایس خواجہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان 2024 PLD 337 سپریم کورٹ)
آئینی (26 ویں ترمیم) ایکٹ، 2024 (26 ویں ترمیم)، جو کہ 21 اکتوبر 2024 کو پارلیمنٹ سے انتہائی جلد بازی میں منظور ہوا، اور اسی دن صدر پاکستان کی منظوری حاصل کی گئی، عدالتی اصلاحات کے حوالے سے متنازعہ اور مبہم ہے۔ اس آئینی ترمیم کو بنیادی طور پر 'عدلیہ کے اختیارات کو روکنے'، 'انصاف تک آزادانہ اور منصفانہ رسائی کے حق' اور 'قانون کی حکمرانی' کی خلاف ورزی کی بنیاد پر بین الاقوامی اور ملک گیر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
26 ویں ترمیم کی متعدد شقوں کا مقصد، بظاہر ملک کے ناقص عدالتی نظام کو درپیش خرابیوں کو دور کرنا ہے، مگر در پردہ اس کے پیچھے اصل محرک ریاستی نظام پر غالب قوت کے مکمل کنٹرول کو یقینی بنانے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ وہ جو پاکستان کے حقیقی حکمران ہیں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کچھ ججوں پر 'غیر چیلنج شدہ (کھوئی ہوئی) کمان' دوبارہ حاصل کرنے کے بارے میں فکرمند تھے۔
اپنے ہونے کے قانونی جواز کے سنگین مسئلے سے دوچار شہباز شریف کی مخلوط حکومت کی طرف سے رات کی تاریکیوں میں 26 ویں ترمیم کا پیش کیا جانا، اور اس کی نامکمل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے، جبر اور زیادتیوں کے الزامات کے مابین منظوری، ہرگز آئینی روایت اور جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں۔ یہ اقدام محض اقتدار کی خاطر ہیں۔ اس سے ریاستی اداروں کو تقویت نہیں ملے گی اور خصوصاً عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کی سالمیت کو مزید نقصان پہنچے گا۔
اس اقدام کے پیچھے ایک بنیادی وجہ بینچوں کی تشکیل اور عوامی اہمیت کے مقدمات کے انتخاب سے متعلق سپریم کورٹ میں جاری لڑائی بھی تھی۔ جس طرح سے معزز جج صاحبان نے ایک دوسرے کو خطوط لکھے اور وہ میڈیا میں بھی زبان زد عام ہوئے، اس نے پاکستان کے تقریباً ہر شہری کو حیران کر دیا۔ عام لوگ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کے درمیان اتنی واضح تقسیم کی توقع ہی نہیں کر سکتے۔ اس طرح کی تقسیم کی توقع ان ججوں سے تو کم از کم ہرگز نہیں کی جا سکتی تھی، جنہوں نے اپنا راستہ ان سے منقطع کیا تھا جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت کی توثیق کی اور اس کو آئین میں ترمیم کا حق دینے کی حد تک فیصلہ صادر کیا۔
17 ستمبر 2023 کو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس کے حلف نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں ایک قابل ذکر تبدیلی کی نشاندہی کی ہے۔ تاہم، یہ 16 مارچ 2009 کو ججوں کی بحالی اور پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی میراث کے بارے میں ' عدلیہ کی آزادی' کے افسانے جیسا ایک اور فریب ثابت ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پیش رو، بشمول میاں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اور عمر عطاء بندیال، کو متنازعہ فیصلوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی موضوعی تشریحات کے ساتھ متعدد مبینہ 'غلط جوڈیشل ایکٹیوازم' کے لیے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا دور ادارے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا اور عوام میں عدلیہ کا امیج انتہائی مایوس کن اورمنفی رہا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کے الزامات اور سیاسی ایجنڈوں سے منسلک فیصلوں نے ان کی میراث کو متنازعہ بنا دیا اور اب یہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جو 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہوئے، ان کے ساتھ ہوا۔
بہت سے لوگوں کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس ترقی ان کے پیش روؤں کی مبینہ عدالتی حد سے بڑھ کر فیصلے کرنے کی روش سے خوش آئند رخصتی تھی، لیکن یہ بھی ایک اور سراب ثابت ہوا! اب پاکستانی قوم پر امید ہے کہ 30 ویں چیف جسٹس مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی انصاف تک رسائی، ججوں کے معیار اور تنازعات کے فوری حل کے ذریعے عدالتی نظام میں مثبت اصلاحات لائیں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے 26 اکتوبر 2024 کو پاکستان کے 30 ویں چیف جسٹس کا اگلے تین سالوں کے لیے (25 اکتوبر 2027 تک) حلف اٹھاتے ہوئے، بینچوں کی تشکیل کے انتہائی ناپسندیدہ عمل 'ہم خیال ججوں' کی شمولیت کو ختم کرنے اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی اصل ساخت کو بحال کرنے جیسے قابل تعریف اقدامات کیے ہیں۔ 'ہم خیال ججوں' کے خاتمے کے بعد دوبارہ اس کی بحالی سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس 2024 کے تناظر میں کی اور یوں اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب وہی کیا جس کی انہوں نے ہمیشہ مخالفت کی۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منیب اختر کی دوبارہ شمولیت اور 28 اکتوبر 2024 کو فل کورٹ اجلاس جس میں سب نے کی شرکت کی، جسٹس سید منصور علی شاہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے، واضح کرتا ہے کہ نئے چیف جسٹس مقبولیت یا بیرونی دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے۔ آنے والے دنوں میں حکومت اور اس کے محافظوں کو اندازہ ہو جائے گا کہ سینیئر ترین انتہائی قابل منصف جسٹس سید منصور علی شاہ کو نظرانداز کرنے کے کیا مضمرات ہو سکتے تھے، جن کو انہوں نے ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔
ماضی میں، بلاشبہ، سیاسی معاملات میں اعلیٰ عدلیہ کی بے جا مداخلت نے عوامی تحفظات کو دور کرنے اور عام لوگوں کے مقدمات نمٹانے کی ذمہ داری کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔ یہ عدم توازن سپریم کورٹ اور تمام عدالتی سطحوں پر مقدمات کے بہت بڑے Backlog سے ظاہر ہوتا ہے، جو نظام کی نا کامی کو واضح کرتا ہے اور اس طرح جمہوریت کے بنیادی ستون، انصاف کی فوری فراہمی، کے حوالے سے بے حسی کو نمایاں کرتا ہے۔
26 ویں ترمیم نے آئین کے آرٹیکل 175 الف میں ترمیم کر کے چیف جسٹس آف پاکستان، اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری کا ایک نیا طریقہ کار وضع کیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو کرتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کو شامل کیا گیا ہے جہاں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوں گے۔
21 اکتوبر 2024 کو 26 ویں ترمیم کی منظوری غیر مکمل پارلیمان نے دی اور اس کے بعد نو تشکیل شدہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی کو 22 اکتوبر 2024 کو اگلے تین سال کے لئے پاکستان کے 30 ویں چیف جسٹس کے طور پر نامزد کیا۔ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منظوری کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے 26 اکتوبر 2024 کو اپنے منصب کا حلف لیا۔ یاد رہے کہ جوڈیشل کمیشن نے جسٹس یحییٰ آفریدی سے سینیئر دو نامور ججوں، مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ اور مسٹر جسٹس منیب اختر کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کو نامزد کیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
آئین میں کی گئی 26 ویں ترمیم کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ آنے والوں دنوں میں ہم پھر ٹیلی ویژن پر اس ضمن میں براہ راست طویل نشریات کا دور دیکھیں گے۔ قانونی کارروائیوں کا طویل دورانیہ ہی تو ہمارے نظام انصاف کی سب سے بھیانک خرابی ہے۔
پاکستان میں اکثر قانونی مقدمات میں کارروائیوں کا دورانیہ، حتمی فیصلہ پر آخری اپیل کے بعد پہنچنے تک، کئی سالوں اور کچھ کیسز میں دہائیوں پر محیط ہوتا ہے۔ کیا 26 ویں ترمیم کے تحت قائم کردہ آئینی بینچ اس دیرینہ مسئلے کو حل کریں گے؟ بہت سے قانونی مقدمات اور معاملات میں، سیاسی کیسز کے علاوہ، آئین کی کسی شق کی تشریح بھی شامل ہوتی ہے۔ 26 ویں ترمیم کے بعد ایسے تمام مقدمات کی سماعت صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئین کے آرٹیکل 191 الف اور 202 الف کے تحت قائم کردہ آئینی بینچوں کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔
توقع یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس اپنے 3 سالہ دور میں اس چیلنج سے نمٹیں گے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ تمام قانونی معاملات کو فوری لیکن منصفانہ طریقے سے حل کیا جائے، شہریوں کو ایک مؤثر اور قابل رسائی عدالتی عمل فراہم کیا جائے۔ حلف اٹھانے سے پہلے ہی مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق؛ 'سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کے لیے آئین کی کچھ تشریحات والے مقدمات کو سپریم کورٹ کے نو تشکیل شدہ آئینی بینچ کو منتقل کرنے کے حوالے سے انتظامی رہنما خطوط جاری کر کے آپریشنل پہلو کو بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی'۔
اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی تعداد 17 سے 23 کرنے کا بل یکم نومبر کو لانے کا فیصلہ کیا ہے، تو کیا آئینی بینچوں کی تشکیل نئی تقرریوں کے بعد ہو پائے گی؟ کیا 26 ویں ترمیم کا مقصد مرضی کے جج اور بینچ لانا ہے؟ نو تشکیل شدہ آئینی بینچوں کا معاملہ ایک معمہ بنتا جا رہا ہے جو کہ خود 26 ویں ترمیم پر سب سے پریشان کن سوالیہ نشان ہے!
بامعنی عدالتی اصلاحات کے لیے ضروری ہے کہ ایک عملی اور قابل عمل طریقہ کار قائم کیا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مقدمات کو ناصرف فوری طور پر تفویض کیا جائے بلکہ بروقت حل بھی کیا جائے۔ عدالتی عمل کو تیز کرنے کے لیے واضح شرائط اور ضمانتوں کے ساتھ، مقدمے کے فیصلے کے لیے Turnaround فریم ورک (TAT) کا تعارف ضروری ہے۔ یہ اقدامات کارکردگی، شفافیت، اور عدلیہ کی بروقت، منصفانہ اور مناسب طریقے سے انصاف کی فراہمی کی اہلیت پر عوام کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ ٹرن اراؤنڈ ٹائم (TAT) فریم ورک ان تمام ممالک میں رائج ہے جہاں نظام عدل کامیابی سے چل رہا ہے۔
تاریخی طور پر ہماری عدلیہ کا ایک قابل ذکر ناپسندیدہ وطیرہ رہا ہے، خاص طور پر اعلیٰ عدالتوں کے جج، حکومت کے قانون سازی کے کاموں میں مداخلت کرتے رہے ہیں، جو اکثر اختیارات کی علیحدگی (separation of powers) کی محدود تفہیم سے پیدا ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی قیادت میں عدلیہ اپنے آئینی طور پر متعین کردار اور فرائض پر سختی سے عمل کرے گی۔ عدلیہ کی مسلسل طے شدہ حد سے تجاوز نے حکومت کے اختیارات کو کافی حد تک محدود کر دیا ہے۔
اختیارات کے ٹرائیکوٹومی (trichotomy) کے اصول کے تحت توازن برقرار رکھنے کے لیے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ذاتی مفادات کے لیے عوامی عہدے کا استحصال کرنے سے افراد کو باز رکھے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کے اس اہم ستون کو اختیارات کے بے جا استعمال سے روکنے کے لیے چوکس نظام احتساب کی بھی ضرورت ہے۔
عدلیہ کی آزادی مؤثر احتساب سے جڑی ہوئی ہے۔ ہر سطح پر ججز اور ان کے عملے کو اپنے اختیارات/ دفاتر کو ذاتی فائدے کے لیے یا اپنے سیاسی نظریات کو آگے بڑھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اس توازن کو برقرار رکھنا ایک فعال اور غیر جانبدار عدالتی ادارے کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے جو اکیلے ہی ایک مؤثر اور عوام کے حامی حکمرانی کے نظام کو یقینی بنا سکتا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ترجیحی طور پر، بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے عدلیہ کے اندر شفافیت کو بڑھانا چاہیے، شکایات کا ایک مضبوط میکنزم قائم کرنا چاہیے، خاص طور پر عدلیہ اور ججوں سے براہ راست متعلق مسائل کے لیے۔ 'باہمی بات چیت' کے ذریعے شکایات کو احتیاط سے حل کرنے کی بجائے، یہ عمل کھلا ہونا چاہیے، جس سے نظام پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے عدالتی کارروائیوں کی براہ راست نشریات کا حالیہ اقدام، خاص طور پر عدالت کے اختیارات اور اس کے دفتر سے متعلق معاملات میں، قابل تعریف ہے۔ امید ہے کہ نئے چیف جسٹس اپنے پیش رو کے حکم کو بھی جاری رکھیں گے کہ رجسٹرار کو سپریم کورٹ کے عملے کے بارے میں حق معلومات ایکٹ 2017 (Right to Information Act, 2017) کے تحت معلومات فراہم کرنا چاہیے۔
ہمارے منقسم شدہ (polarized) معاشرے میں عدلیہ، سیاست دانوں اور مسلح افواج کے خلاف غلط معلومات اور بے بنیاد الزامات سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بغیر کسی جوابدہی کے پھیلتے ہیں۔ ریاست کے تینوں ستونوں پر فرض ہے کہ وہ مشترکہ طور پر آزادانہ اظہار رائے کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے جعلی خبروں اور پروپیگنڈے سے نمٹنے کے لیے مضبوط قانون سازی اور نفاذ کا طریقہ کار بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، نئے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے رولز کا از سر نو جائزہ لینے کی ذمہ داری اٹھانی ہو گی، جس کا مقصد وضاحت، کارکردگی اور رسائی کو بڑھانا ہے۔ جدید کاری کے اقدامات، ڈیجیٹائزیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی/ مصنوعی ذہانت کو شامل کرنا قانونی طریقہ کار کو ہموار کر سکتا ہے، جو بالآخر مجموعی طور پر عدالتی افادیت کو بہتر بنا سکتا ہے۔
پاکستان کے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سربراہ کے طور پر نئے چیف جسٹس کو عوامی بحث شروع کرنے کی ضرورت ہے، جس میں موجودہ پانچ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کے انتخاب/ برطرفی کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے آئینی ترامیم کے نفاذ کے لیے تجاویز طلب کی جائیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے ساتھی ججز اور ملک کی پانچ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے درمیان اتفاق رائے سے ان کالموں میں دو حصوں کی سیریز میں تفصیلی جامع اصلاحاتی ایجنڈے کو مکمل کر کے اپنے دور کو تاریخی بنا سکتے ہیں۔ ہمیں بین الاقوامی معیارات کے مطابق ججوں کے احتساب کے اختیارات عدلیہ سے پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 209 میں بھی ترامیم کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا ریاستی اور حکمرانی کا نظام شہریوں کے حقوق زندگی، تحفظ، انصاف تک رسائی اور قانون کے مطابق عمل، آزادی اظہار، عقیدہ، مذہب، اسمبلی اور انجمن کے حوالے سے آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مسلسل ناکام رہا ہے۔ ان ضمانت شدہ ناقابل تنسیخ بنیادی حقوق کی حفاظت کا زیادہ تر انحصار عدلیہ پر ہے کہ وہ بغیر کسی بیرونی اثر و رسوخ یا ایجنڈے کے مؤثر طریقے سے، آزادانہ طور پر، بغیر کسی خوف اور حمایت کے کام کر رہی ہے یا نہیں۔
تمام حلقوں اور عوام کی توقعات ہیں کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے دور میں شفافیت، انصاف پسندی اور امتیازی سلوک سے آزاد عدلیہ کو ترجیح دیں گے۔ تاریخی طور پر، پاکستان کے چیف جسٹس (اپنے آخری چند مہینوں میں بطور چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ بھی اس کا شکار ہوئے) نے بینچوں کی تشکیل میں اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے، چند ایک 'ہم خیال ججوں' پر انحصار کیا، خاص طور پر ایسے مقدمات میں جن کے دور رس سیاسی اثرات تھے۔ امید ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی قیادت میں اس نا پسندیدہ عمل سے مکمل انحراف کیا جائے گا۔
آنے والے دنوں میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ عدلیہ آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے اور ان کا تحفظ کرنے کے لیے غیر جانبداری اور مؤثر طریقے سے کام کرے گی۔ اس ضمن میں سب سے پہلا ٹیسٹ کیس جواد ایس خواجہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان [337 SC 2024 PLD] ہے۔ اس کو نامناسب طور پر انٹرا کورٹ اپیلز میں 13 دسمبر 2023 کو 1-5 کی اکثریت سے معطل کر دیا گیا جبکہ ابھی تفضیلی فیصلہ سامنے نہیں تھا۔ مقام افسوس ہے کہ پھر آج تک اس مقدمہ میں کوئی مزید کارروائی انٹرا کورٹ اپیلز میں نہیں ہوئی۔ اس کا جلد از جلد فیصلہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 10 الف کے تحت شہریوں کے بنیادی حق کا معاملہ ہے کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں کے تحت ہو سکتا ہے یا نہیں۔