جیسا کہ مولانا جولائی ہی میں اعلان کر چکے تھے کہ وہ اکتوبر میں اسلام آباد آئیں گے۔ تب سے میرے ذہن میں ایک سوال بار بار کھٹک رہا ہے کہ حکومت کی نا اہلی اپنی جگہ مگر مولانا کب سے اتنے انقلابی ہو گئے؟ اور خصوصًا وہ تمام بیانات دیکھنے کے بعد جس میں مولانا براہ راست یا اشارةً بگ باس کو للکار رہے ہیں۔ تب سے رہا نہیں جا رہا کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش تو کی جائے کہ آخر چکر ہے کیا۔
ویسے تو سب ہی بگ باس کی دین ہیں لیکن آج جو کھلی چھٹی کے مزے عمران خان اور ان کی حکومت لے رہی ہے۔ اسی طرح کے مزے اس وقت مولانا اور ان کے باقی ساتھیوں نے لئے تھے جب تب کی اسٹیبلشمینٹ نے متحدہ مجلس عمل بنائی تھی۔
بگ باس جو کارروائی کرتا ہے وہ اس وقت نظر نہیں آتی۔ جیسے ہی وہ اگلی کارروائی شروع کرتے ہیں تو پچھلی کی سمجھ آتی ہے۔ جیسے اس وقت جب یہ مذہبی پارٹیاں اکٹھی ہو رہی تھیں تو صوبہ سرحد کے لوگوں میں ایک جذبہ تھا کہ سب مذہبی جماعتیں اکٹھی ہو رہی ہیں اور لوگوں کو عمومی طور پر ان کی نیّت پر ذرّا برابر بھی شک نہیں تھا۔ چونکہ میڈیا اس وقت نہ ہونے کے برابر تھا تو لوگوں میں بگ باس اور اس کی منصوبہ بندی کی کوئی خاص آگاہی بھی نہیں تھی۔ پھر بعد میں کہیں جا کر پتا چلا کہ یہ تو لوگوں کو الّو بنانے کے لئے متحدہ مجلس عمل بنائی گئی۔ تاکہ مشرف صاحب کا دور حکمرانی آرام سے گزرے۔ وہی ہوا، وہاں سے جنرل مشرف کا اقتدار ختم ہوا اور یہاں متحدہ مجلس پھر متحد نہ رہی۔ اس پہ اس نا چیز کا معصومانہ سا سوال یہ ہے کہ جب مولانا کا بھی یہی پس منظر ہے کہ وہ ایک وقت میں بگ باس کے خاص آدمی رہے ہیں تو وہ کیسے حضور کو اتنی کھری کھری سنا سکتے ہیں وہ بھی بظاہر بغیر کسی خوف کے۔
کیا مولانا کے پیچھے کوئی ہے؟ اور اگر ہے تو کون ہے ؟ اب مولانا کے پیچھے انڈیا یا امریکہ تو ہو نہیں سکتے۔ کیونکہ امریکہ اور انڈیا دونوں بہت خوش ہوں گے کہ پاکستان میں اس قدر نااہل حکومت آئی ہے کہ عثمان بزدار جیسے سادہ پادہ لوگوں کو بھی عظیم کر کے پیش کرتی ہے۔ وہ تو خوش ہوں گے کہ یہی حکومت رہے کہ پاکستان مزید سے مزید کمزور ہوتا چلا جائے۔ تو پھر کون ہو سکتا ہے مولانا کے پیچھے کہ جس سے سب ڈرتے ہیں وہ اسی کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور اسی کی بنائی ہوئی حکومت کو گرانے کے مشن پہ معمور ہوں۔
میرے ذہن میں اس معمّے کی صرف دو ممکنات ہیں۔ ایک یہ کہ بگ باس خود سے یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح خان صاحب کا بوریا بستر گول کیا جائے۔ لیکن ساتھ ہی خان صاحب کو کچھ وقت بھی دیا جائے کہ اس دوران وہ اپنے آپ کو سنبھال لیں۔ نااہلی اپنی جگہ خان صاحب نے استاد جی کو اخلاقی شکست بھی دے رکھی ہے چونکہ ابھی تک انہوں نے کسی بھی معاملے میں استاد کی حکم عدولی نہیں کی۔ چنانچہ وہ بہت کچھ نہ کر پا کے بھی احترام کی وجہ سے فلحال کم از کم منتھلی ٹیسٹ monthly test پاس کر رہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بگ باس جو کر رہا ہو وہ اس وقت نظر نہیں آتا۔ ضروری نہیں ہے کہ بگ باس نے باقاعدہ ایک مشن بنایا ہو کہ ہم یہ سب ایسے کریں گے کہ مولانا کو بھیج دیں گے تاکہ حکومت کو قابو کیا جا سکے۔ بگ باس کے کارروائی کرنے کے مختلف انداز ہیں جو موقع کی مناسبت سے بدلتے رہتے ہیں۔ یا تو وہ جو ہو رہا ہو اس کو بدل دیتی ہے اور یا پھر اس عمل کو ہونے دیتی ہے اور مداخلت نہیں کرتی۔ اس کی مثال آپ یوں لے لیجیئے کہ آپ کے دو دوست آپس میں ہاتھا پائی میں مصروف ہوں اور آپ طاقت رکھنے کے باوجود ان کو نہ روکیں اور تماشہ دیکھتے رہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے مداخلت نہیں کی۔ آپ کا ان کو نہ روکنا بھی اتنی ہی مداخلت ہے۔ یہ آپ کی اس میں رضا مندی ظاہر کرتا ہے جو ہو رہا ہوتا ہے۔ اب بگ باس مولانا کے پیچھے ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کس زاویے میں فٹ ہوتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا۔
دوسرا امکان یہ ہے کہیں چھوٹے موٹے لیول پر بگ باس کی سوچ میں فرق تو نہیں آ رہا؟ جیسے خان صاحب نے امریکہ میں کہا کہ جب اسامہ بن لادن پاکستان سے برآمد ہوا تو اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو نہیں پتا تھا لیکن نیچے کے اہلکاروں نے اسامہ کو ڈھونڈنے اور پکڑوانے میں امریکہ کی مدد کی تھی، تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے جرنیلوں کو پتا ہی نہ ہو اور اسی طرح اندر ہی اندر کوئی اور کھچڑی پک رہی ہو؟ اس پر ایک ہلکا سا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
گو کہ خان صاحب کی اقوام متحدہ میں جوشیلی تقریر بہت سارے نوجوانوں کو جو کہ ان سے مایوس ہو گئے تھے واپس تو لے آئی ہے اور ان کے اندر کا محمد بن قاسم پھر سے جاگ اٹھا ہے۔ لیکن، جو ان سے نالاں تھے وہ مزید نالاں نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے ہے تو نازک صورتحال۔ مولانا کے چہرے پہ اس اعتماد کے پیچھے کوئی متبادل سوچ رکھنے والے تو پیدا نہیں ہو گئے؟ میرے پاس اس امکان کی صرف ایک دلیل ہے خان صاحب کے اس راز کے فاش کرنے کے علاوہ جس کا اوپر ذکر ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک لوگوں کی سوچ میں اس قدر امتیاز نہیں آیا۔
پہلے عمومی طور پر لوگوں کی رائے ایک ہی ہوتی تھی اور اقلیتی سوچ رکھنے والے لوگ کبھی کبھی کسی نجی محفل میں اپنی بھڑاس نکالتے تھے۔ مثال کے طور پر جب جنرل مشرف آئے تو عمومی طور پر لوگوں نے ان کی وہ جہاز والی کہانی پہ یقین کر لیا اور جنرل مشرف کو بطور حکمران قبول کر لیا۔ اسی طرح اس کے باوجود کہ پیپلزپارٹی کا دور شدید پستی اور بدانتظامی کا شکار تھا، پھر بھی لوگوں نے عمومی طور پر آصف علی زرداری کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں چونکہ کم از کم بجلی کا مسئلہ کافی حد تک ٹھیک ہو گیا تھا تو اس حکومت کو بھی لوگوں نے عمومی طور پر تسلیم کر لیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عمومی طور پر لوگوں کی رائے ایک نہیں بلکہ کافی تعداد میں متضاد سوچ رکھنے والے لوگ بھی ہیں۔ اور یہ متضاد سوچ رکھنے والے لوگ اب کھلم کھلا بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ آپس میں لڑ بھی پڑتے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود انہوں نے ابھی تک اس حکومت اور اس کی طرزِ حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا۔
سادہ الفاظ میں یہ کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو حکومت وقت کو پسند کرتے ہیں، حکومت کی نااہلی کے باوجود۔ پھر ان لوگوں میں بھی دو قسم کے لوگ ہیں ۔ایک وہ جو خان صاحب کو پسند کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بگ باس کے دیوانے ہیں۔ یہ دونوں ایک پیج پر ہیں۔ جبکہ تصویر کی دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو کہ حکومت وقت سے سخت نالاں ہیں۔ان میں بھی مزید دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو نواز شریف کو پسند کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو چاہتے ہیں کہ فوج سیاست سے دور رہے۔ یہ دونوں بھی ایک پیج پر ہیں۔ پہلی مرتبہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں، چیخ و پکار کر رہے ہیں، فریاد کر رہے ہیں کہ یہ ہم کہاں پھنس گئے۔
جب لوگوں کی اس قدر کثیر تعداد حکومتِ وقت سے نالاں ہو گئی ہے تو کیا بگ باس کے ہیڈ کواٹر میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جو نالاں ہوا ہو؟ اگر تو مولانا کے پیچھے کوئی نہیں ہے تو وہ اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لے رہے ہیں؟ کیا ان کو نیب کے کیس بننے کا ڈر نہیں؟ اس لمبے سیاسی سفر میں کہیں نہ کہیں تو انہوں نے کوئی نہ کوئی غلطی تو کی ہو گی جو بگ باس کے ڈیٹا بیس database میں موجود ہو گی، کیا ان کو یہ ڈر نہیں کہ یہ راز کھل گئے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے؟
یہ کہنا کہ مولانا مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو سیاست کے لئے استعمال کر رہے ہیں، بڑی عجیب سی بات ہے۔ یہ تو ہر سیاستدان کرتا ہے۔ ہر سیاستدان اپنے پیروکاروں کو کسی نہ کسی حصار میں پھنسا کے وہ سب کچھ کرواتا ہے جو وہ چاہتا ہو۔ جو پیروکار ہوتے ہیں وہ تو اپنے مرشد کے تابع ہوتے ہیں۔ مرشد چاہے کسی جہادی تنظیم کا روحِ رواں ہو یا کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر اس کے پیروکار کے احساسات اپنے مرشد کو لے کر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس لئے کارڈ جو بھی ہو مولانا کے پیروکار اسی طرح ان کا آرڈر مانیں گے، جیسے خان صاحب کے پیروکاروں نے مانا تھا۔ ان کے چار ماہ کے دھرنے کے دوران۔
اس سب کے بعد ہم واپس اسی سوال پہ آتے ہیں کہ مولانا کو کیا ڈر نہیں لگتا؟ اور اگر نہیں لگ رہا تو کیوں نہیں لگ رہا؟ کیا ان کو پاناما کا کیس بھول گیا، یا دیکھ نہیں پا رہے کہ جو بھی ہیرو بننے کی کوشش کر رہا ہے زیرو ہوتا جا رہا ہے؟
ان کے اس اعتماد کے پیچھے کون ہے؟ آخر مولانا کب سے اتنے انقلابی ہو گئے؟
ازراہ تفنن