پی ڈی ایم (PDM) سیدھی سادھی جمہوری تحریک ہے کیونکہ اس کے پس پردہ کوئی بیرونی قوت نہیں ہے۔ اس تحریک کا مقصد جمہوری طریقوں سے تبدیلی لانا ہے جو عمران خان کے نئے پاکستان کے نظریے کا قدرتی رد عمل ہے‘ جس کے تین اہم بنیادی اہداف ہیں۔ مثلاً ملک کومعاشرتی واقتصادی طور پر ریاست مدینہ کے اصولوں پراستوار کرنا؛ پاکستان کو بدعنوانی(Corruption) سے پاک کرنا اورپاکستان کے غریب عوام کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو یقینی بناناہے۔“
گذشتہ دو سالوں سے ان مسائل کاڈھنڈورا پیٹتے ہوئے سیاسی قائدین کوبدنام کرنے کی مہم جاری ہے جس کے نتیجے میں صرف سیاسی جماعتوں کی ساکھ کوہی نقصان نہیں پہنچا ہے بلکہ جمہوریت کا چہرہ بھی داغدار ہواہے۔ عدالتیں‘ نیب (NAB)‘ ایف آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بدعنوان عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کررہی ہیں لیکن اب تک عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہیں آئی ہے بلکہ ”حکمرانوں کی جانب سے اختیارات کے اندھے استعمال اور نااہل طرزحکمرانی کے نتیجے میں اختیار اور طاقت دونوں زوال پذیر ہیں۔ میڈیا کی زبان بندی جیسے اقدامات سے ریاست کی حاکمیت کو اخلاقی طور پر ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں اس دم گھٹنے والے ماحول سے چھٹکارا پانے کے لئے اتحاد بنانے پر مجبور ہوئی ہیں۔نوجوان بلاول بھٹوبکھری ہوئی حزب اختلاف کی جماعتوں کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جودو بڑ ی سیاسی جماعتوں اور مضبوط دینی جماعتوں پر مشتمل ہے اورعوام کی کثیر تعداد کو متحرک کر سکتی ہیں جیسا کہ انہوں نے اس سال کے شروع میں اسلام آباد کے نزدیک اکٹھا کیا تھا۔بلاشبہ یہ ایک طاقتورتحریک بن سکتی ہے‘ خصوصا جب عمران خان خود کہہ رہے ہوں کہ ”پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں اداروں کی پیداوار ہیں۔“ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عوام کے مزاج کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اداروں کامزاج بھی تبدیل ہوجایا کرتا ہے۔ چاہے کھیل کا میدان ایک ہی کیوں نہ ہو۔اب عمران خان کو دوراستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔
ملک کو بدترین صورت حال کی طرف جانے سے پہلے مصلحت کی راہ اختیار کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کے ذریعے سیاسی صورت حال کا موذوں حل تلاش کریں جو ممکن ہے۔ حزب اختلاف کو اپنا کھیل کھیلنے دیں اورنتائج سے بے پرواہ ہوکر ان کے خلاف کاروائی کریں۔ریاستی طاقت کا استعمال کرکے تحریک کو دبانے کی راہ اختیار کریں۔
عمران خان حزب اختلاف والوں سے ملنا پسندنہیں کرتے اسی لئے آرمی چیف نے اپوزیشن سے ملاقات کی تاکہ کشیدگی کم ہو۔ عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ ”وہ آخری بال تک لڑنے کے قائل ہیں۔“ لہذا اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ معاملات کو کھلےمیدان میں حل کرنے کا فیصلہ کریں گے جبکہ اس کے جواب میں حزب اختلاف نے تحریک چلانے کی جو سیاسی حکمت عملی وضع کر رکھی ہے۔ اس کے خدوخال بڑے واضع ہیں مثلاآل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ بجائے کسی اورسیاسی قائد کے مولانا فضل الرحمن نے پڑھا۔یعنی ان کے سیاسی وزن کوتسلیم کیا گیا ہے۔ تحریک کی قیادت سیاسی حکمت کے تحت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سونپی گئی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ آئندہ قائم ہونے والے کسی بھی نظام میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اپنے لئے نمایاں سیاسی مقام حاصل کر سکے گی۔اس امر کا کافی مدت سے انتظار تھاخصوصا 2018 ء کے انتخابات میں جب دینی جماعتوں نے بڑے قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیالیکن ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے‘ بالخصوص مولانا سمیع الحق جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے امیدوار تھے‘ وہ انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ اب حزب اختلاف کی صفوں میں اصغر خان جیسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جوحالات بگڑنے کی صورت میں فوج کے سربراہ کو اقتدار سنبھالنے پر اکسا سکے۔اس تناظر میں نواز شریف کے تندوتیز خطاب کوتوجہ طلب قرار دیا جارہا ہےکہ اس سے قومی اداروں کے مابین بدگمانی پید اکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نے تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ شہباز شریف کونیب نے حراست میں لے لیا ہےزرداری پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اورجادوکا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ عمران خان کو تحریک کو دبانے کے لئے ٹائیگر فورس کو استعمال کرنے پر اکسایا جا سکتا ہے جیسا کہ بھٹو نے ایف ایس ایف (FSF)کو استعمال کیا تھا جس کے انتہائی مہلک نتائج برآمد ہوئے تھے۔بالآخرنظام کو بچانے کے لئے سلامتی کے اداروں کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ حکومت کے پاس آخری حربہ یہی ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ صورت حال انتہائی مخدوش شکل اختیار کر جائے گی کیونکہ عوام کا مزاج ایک اور فوجی حکومت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کی قیادت پر کرپشن کے الزامات ہیں لیکن ان کے درمیان صاف شفاف کردار کے حامل ایسے
قابل لوگ بھی موجود ہیں جوحکمرانی کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اورجمہوری اقدار کے تحفظ اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ایسے لوگ معاملات کو سنبھال کر شفاف انداز سے انتقال اقتدار یقینی بنا سکتے ہیں بجائے اس کے کہ دھاندلی زدہ انتخابات یا ریاست کے پس پردہ کارفرما قوت(Deep State) کی چالوں کے ذریعے یا چار اے(Four "A") کا گٹھ جوڑ اقتدار سنبھال لے۔اہم بات یہ ہے کہ عوام یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ کرونا کی وباء کی آلودگی کے باوجود جمہوریت کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع دیا جانا لازم ہے۔ ابھی میں نے یہ مضمون مکمل ہی کیا تھا کہ حکومت نے ریاستی طاقت کو استعمال کرکے تحریک کو دبانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک ہنگامہ برپا ہے۔ اس صورت حال پر چند تجزیہ نگاروں کے تبصرے قابل غور ہیں۔ رات کے اندھیرے سے جمہوریت کی صدا بلند ہو چکی ہے۔ بر وقت آوازاٹھائی ہے۔ہنر یہی تو کف کوزہ گر میں ہے۔
جس خیال کا وقت آگیا ہو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔“
وکٹر ہیگو