خیال رہے کہ خواجہ سرا نایاب علی اپنے سماجی کاموں کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں اپنے وطن کا نام روشن کروں۔ مجھے اب تک کئی انعامات، تمغوں اور اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔
نایاب علی کا کہنا تھا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ ویمن گلوبل ایوارڈ کو مسترد کرنا میرے لئے ایک بڑا مشکل فیصلہ تھا لیکن میں سمجھتی ہوں کہ میرا اسے رد کرنے فیصلہ درست تھا۔ اس احتجاجی اقدام کے پیچھے بھارت کو یہ بتانا مقصود تھا کہ کشمیریوں پر ظلم اور دنیا کو دکھانے کیلئے انسانی حقوق کے ایوارڈ بانٹنا منافقت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے سوچا کہ بھارت کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے اس کو احساس دلایا جائے کہ وہ منافقت کررہا ہے اور اگر وہ اتنا ہی حقوق انسانی پر یقین رکھتا ہے تو کشمیرکے نہتے عوام پر جاری ظلم وبربریت کو روکے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق سرحدوں سے بالاتر ہوتے ہیں اور اگر ایک ملک کہیں پر ان حقوق کی خلا ف ورزی کرتا ہے تو اس کو حقوق نسواں یا حقوق انسانی کا علمبردار کہلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
انہوں نے بتایا کہ میں آئر لینڈ کی ایک ایوارڈ تقریب میں موجود تھی جہاں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کی سربراہ محترمہ مشعل سمیت 190 ممالک کے نمائندے موجود تھے لیکن کسی نے ایک لفظ بھی کشمیر سے متعلق نہیں بولا تھا۔ میں نے اسی لیے یہ جرات کی ہے تاکہ اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکوں۔
خواجہ سرا نایاب علی پاکستان کی ایک مایہ ناز سماجی کارکن ہیں ، جنہوں نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کئی مسائل کا سامنا کیا ہے۔
انہیں 13 سال کی عمر میں والدین نے گھر سے نکال دیا تھا۔ بعد ازاں نامعلوم افراد نے ان کے منہ پر تیزاب پھینکا جس کی وجہ سے ان کی گردن اور چہرے کا کچھ حصہ جھلس گیا۔ 2020ء میں کچھ افراد نے ان کے گھر میں گھس کر ان پر قاتلانہ حملہ کیا تاہم وہ بال بال بچ گئی تھیں۔