انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کے اپنے بھی مقاصد تھے، کچھ نے ایکسٹینشن لینی تھی جبکہ کچھ نے پوسٹنگ اور ٹرانسفرز کرانی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارا بندہ ہوگا تو سارا کچھ ہی کر دے گا جو زرداری یا نواز شریف تو کرنے والے نہیں ہیں۔
یہ بات نجم سیٹھی نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام '' خبر سے آگے'' میں ملک کی سیاسی اور معاشی ودیگر ایشوز پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھتے تھے کہ میڈیا کو کنٹرول کر لیں گے، حکومت کام کرے گی، عدالت کو بھی قاضی فائز عیسیٰ کیس کے ذریعے پیغام دے دیا جائے گا اور سب ٹھیک چلے گا لیکن سب کچھ فیل ہوگیا، الٹا پڑ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے، پیپلز پارٹی وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ عمران خان بالکل فارغ ہو چکے ہیں، ان کی کارکردگی اس قدر بری ہے کہ ان کو لانے والے بھی پریشان اور شرمندہ ہیں۔ ان کیساتھ جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ ان پر پورا نہیں اتر سکے، انہوں کوئی ایک مسئلہ بھی ابھی تک حل نہیں کیا۔ لوگ اب نواز شریف کیساتھ رابطے کرکے کہہ رہے ہیں ہمیں معاف کرتے ہوئے آئندہ موقع دیا جائے کیونکہ جب بھی الیکشن ہوئے تحریک انصاف کا تو صفایا ہو جائے گا
نجم سیٹھی نے کہا کہ سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ریاستی ادارے جو عمران خان کو سپورٹ کر رہے ہیں، انھیں اب تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں نواز شریف پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہے ہیں، وہ دن بدن زیادہ جارحانہ ہو کر اپنے بیان دے رہے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہے کہ یہ باتیں عوام کو پسند آ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب میڈیا بھی کھڑا ہو گیا ہے، انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ہم اب عمران خان کا چورن نہیں بیچ سکتے، جو لوگ ان کے گن گاتے تھے، وہ بھی اب شرمندہ ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس امید پر عمران خان کو ووٹ ڈالا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر کچھ کریں گے لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اب حالیہ کنٹونمنٹ انتخابات اس جانب اشارہ ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ان میں فتح حاصل کر سکتی ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی پنجاب میں کیا ہوگا۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ عدلیہ بھی چھوٹے چھوٹے ایشوز پر حکومت کا ساتھ دے رہی ہے لیکن جہاں معاملات دشوار ہو جاتے ہیں تو اس موقع پر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی آزاد قسم کی ججمنٹ دی جائے۔
ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو اس وقت معیشت کی صورتحال ہے یہ جلد ٹھیک ہونے والی نہیں ہے، مہنگائی بھی کہیں نہیں جا رہی۔ صورتحال بہت خطرناک ہے۔ ہماری خطے میں کسی سے دوستی نہیں، سیکیورٹی خرچہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے، عملیت پسندی اور رواداری ختم ہو رہی ہے۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے اور اشرافیہ مکمل طور پر شعوری دیوالیہ پن کا شکار ہے، ہمارے سامنے طوفان آ رہے ہیں۔
ملک کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ افغانستان میں جیت ہو چکی ہے، امریکا کی چھٹی کرا دی، اب طالبان آ گئے ہیں، اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن اب یہ آہستہ آہستہ مانند پڑتی جا رہی ہے، اب پریشانیاں شروع ہو چکی ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی ملک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی سو فیصد فیل ہو چکی ہے، اس کی وجہ سے پاکستان آئسولیشن میں جا چکا ہے۔