20 فروری 1943 کو انتونیو انوکی جاپان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام کانجی انوکی تھا۔ انہوں نے 60 کی دہائی میں ریسلنگ شروع کی اور جلد ہی وہ دنیائے ریسلنگ میں جاپان کے سب سے بڑے کھلاڑی بن گئے۔ اپنی زندگی میں وہ 12 مرتبہ ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ کے فاتح رہے۔
ان کی شہرت کو چار چاند اس وقت لگے جب 1976 میں ورلڈ چیمپئن باکسر محمد علی کے ساتھ انہوں نے مکسڈ مارشل آرٹس مقابلے میں حصہ لیا۔ یہ مقابلہ اتنا سنسنی خیز تھا کہ 15 راؤنڈز تک جاری رہا مگر پھر بھی فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکا۔ دونوں پہلوانوں نے اپنا بہترین کھیل اور لاجواب صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالف کو جیتنے کا موقع نہیں دیا اور یوں یہ مقابلہ برابر رہا۔ اسے 'صدی کا سب سے بڑا مقابلہ' قرار دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ جدید مکسڈ مارشل آرٹس کی بنیاد اسی مقابلے نے رکھی تھی۔
اس مقابلے کے بعد پاکستان کے مشہور بھولو خاندان سے تعلق رکھنے والے اکرم پہلوان نے انہیں مقابلے کا چیلنج دے دیا۔ 12 دسمبر 1976 کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں یہ مقابلہ ہوا۔ بنیادی طور پر یہ مقابلہ 6 راؤنڈ پر مشتمل تھا مگر تیسرے راؤنڈ کے دوسرے ہی منٹ میں مقابلہ ختم ہو گیا۔ انوکی کے آرم لاک نے اکرم پہلوان کو قابو کر لیا جس کے بعد دونوں کھلاڑیوں کے حامیوں کے مابین خاصی گرما گرمی بھی دیکھنے میں آئی۔ انوکی ہاتھ بلند کرکے اپنی جیت کا اعلان کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب اکرم پہلوان ٹی وی کیمروں کے سامنے انوکی پر منفی کھیل کھیلنے کا الزام عائد کر رہے تھے۔
اکرم پہلوان کے بھتیجے اور بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو اس مقابلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ دراصل اس مقابلے سے پہلے چچا اکرم پہلوان سخت بیمار ہو گئے تھے اور ان کی شوگر خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی۔ ان سے اس مقابلے کی تیاری بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہو پائی تھی مگر یہ بات ان کی خاندانی روایات کے خلاف تھی کہ مقابلے کا چیلنج دینے کے بعد خود ہی اس سے منع کر دیا جائے۔ اس طرح مکمل طور پر صحت مند نہ ہونے کے باوجود اکرم پہلوان نے یہ کشتی لڑی اور اس حالت میں بھی مقابلے کو تیسرے راؤنڈ تک لے جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ کشتی پاکستان ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔
اکرم پہلوان کی انوکی سے شکست کے بعد ان کے خاندان کی دوسری نسل بھی انوکی کے مدمقابل آئی۔ 17 جون 1979 کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں بھولو پہلوان کے چھوٹے بھائی اسلم پہلوان کے بیٹے زبیر عرف جھارا پہلوان انوکی کے مدمقابل تھے۔ اس مقابلے کے 5 راؤنڈ ہوئے مگر یہ برابر رہا۔ مقابلے کے آخر میں انوکی نے جھارا پہلوان کا ہاتھ فضا میں بلند کرکے ان کی جیت کا اعلان کر دیا۔ یوں ایک نسل کی شکست کا بدلہ اگلی نسل نے جا کر لیا۔ پاکستانی پہلوان گھرانے سے انتونیو انوکی کے اچھے تعلقات قائم ہو گئے اور بعد میں انوکی جھارا پہلوان کے بھتیجے اور اسلم پہلوان کے پوتے ہارون عابد کو اپنے ساتھ جاپان لے گئے تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پہلوانی کی تربیت بھی حاصل کر سکیں۔
انہوں نے اپنا آخری میچ 4 اپریل 1998 کو کھیلا اور 2010 میں انہیں ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ (WWE) کے ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔
1989 میں انوکی جاپانی پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن منتخب ہو گئے۔ جب وہ پارلیمان میں پہنچے تو انہوں نے کئی ملکوں کے سفارتی دورے کیے اور جاپانی سفیر کے طور پر ان ملکوں سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کیں۔ 1990 میں خلیجی جنگ کے دوران وہ عراق گئے۔ جنگ میں عراقی فوج نے کئی جاپانیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ انوکی نے صدام حسین سے جاپانی یرغمالیوں کی رہائی کی درخواست کی جسے قبول کرتے ہوئے ان یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔ اسی دورے کے دوران کربلا کی زیارت کرنے کے بعد انتونیو انوکی نے اسلام قبول کر لیا۔ ان سے جب اسلام قبول کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کربلا کی مقدس تقریبات اور امن کے تصور سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بدھ مت اور اسلام دونوں کی تعلیمات کو ماننے والے تھے اور 2014 کے بعد انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ صرف بدھ مت کے پیروکار ہیں۔
دسمبر 2012 میں ایک مرتبہ پھر وہ پاکستان کے دورے پر آئے۔ اس دورے پر انوکی کے ہمراہ کئی جاپانی پہلوان بھی آئے جنہوں نے لاہور اور پشاور میں کئی ریسلنگ مقابلوں میں حصہ لیا۔ اس دورے پر انہوں نے لاہور میں اکرم پہلوان اور جھارا پہلوان کی قبروں پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔
دسمبر 2021 میں انوکی چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے اور وہیل چیئر تک محدود ہو گئے۔ بالآخر آج وہ اس دنیا میں اپنے کروڑوں مداحوں کو اداس چھوڑ گئے۔ دنیائے ریسلنگ سے وابستہ کھلاڑیوں کے علاوہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے انوکی کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انتونیو انوکی جیسا عظیم کھلاڑی ہمیشہ اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔