محمد یوسف اور جیسن گلیسپی کی لڑائی؛ غلطی کس کی تھی؟

محمد یوسف کا مؤقف تھا کہ سینٹرل کنٹریکٹ ہمیشہ کارکردگی کی بنیاد پہ دیا جاتا ہے۔ جس کی جتنی اچھی پرفارمنس، اس کی اتنی ہی اچھی کیٹگری۔ سخت فیصلے کرنے چاہئیں۔ ٹھیک ٹھاک تنزلی کریں پرفارم نہ کرنے والے پلیئرز کی۔ مگر یہ بات بھی نہ مانی جیسن گلیسپی نے۔

02:46 PM, 1 Oct, 2024

نیوز ڈیسک
Read more!

ہائے رے پاکستانی کرکٹ تیری قسمت۔۔۔ محمد یوسف اور جیسن گلیسپی بھی لڑ پڑے۔ واہ جی واہ۔۔ تالیاں۔۔۔ بس یہی دیکھنا باقی رہ گیا تھا۔ پلیئرز میں تو اختلافات ہیں ہی، ساتھ ہی ریڈ بال کوچ جیسن گلیسپی اور سلیکٹر محمد یوسف میں بھی لڑائی ہو گئی۔ دونوں کے درمیان اتنی بحث و تکرار ہوئی کہ توبہ توبہ اور پھر جیسن گلیسپی نے دھمکی دے دی سلیکشن کے معاملات سے علیحدہ ہونے کی۔ انتہا سے زیادہ گرم ہو گیا معاملہ۔ بس پھر کیا تھا، جیسن گلیسپی زیادہ طاقت ور ثابت ہوئے اور محمد یوسف کو گھر جانا پڑا۔ استعفا دے دیا سلیکشن کمیٹی سے محمد یوسف نے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ہے اندرونی کہانی محمد یوسف کے استعفے کی۔ لیکن دونوں کی بحث آخر ہوئی کیوں؟

تو جناب ایک وجہ ہے انگلینڈ کے خلاف ہوم ٹیسٹ سیریز کے لیے اسکواڈ سلیکشن اور دوسری کھلاڑیوں کا سینٹرل کنٹریکٹ۔ پہلے بات کر لیتے ہیں سلیکشن کے مسئلے کی۔ محمد یوسف چاہتے تھے کہ کامران غلام، محمد علی اور زاہد محمود کو اسکواڈ کا حصہ بنایا جائے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی خواہش تھی کہ عبداللہ شفیق کو آرام دے کر ان کی تکنیک پہ کام کیا جائے۔ مگر نہیں مانے جیسن گلیسپی۔ محمد یوسف نے فل زور لگایا کہ نکال باہر کرو مسلسل ناقص کارکردگی دکھانے والے پلیئرز کو۔ نئے پلیئرز کو چانس دو۔ پر جیسن گلیسپی صاف انکار کرتے رہے۔ وہ مسلسل ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ تسلسل چاہیے تسلسل۔ محمد یوسف نے سب کھلاڑیوں کے Stats سامنے رکھے گلیسپی کے۔ ثابت کیا کہ لمبے عرصے سے ان پلیئرز کی پرفارمنس کچرا ہے کچرا۔ مگر وہی مرغ کی ایک ٹانگ۔ جیسن گلیسپی کا کوا سفید ہی رہا۔

محمد یوسف نے کامران غلام کی ڈومیسٹک کرکٹ اور چیمپئنز کپ میں آؤٹ سٹینڈنگ پرفارمنس کا بتلایا پر نہ تو ماننا تھا گلیسپی نے اور نہ ہی مانے۔ رہے عبداللہ شفیق تو محمد یوسف نے کہا کہ ان کی کمزوریوں کا پتہ چل چکا ہے دنیا کو۔ وہ  Exposeہو چکے ہیں۔ اسی لیے ناصرف انٹرنیشنل بلکہ ڈومیسٹک لیول پر بھی رنز نہیں بنا رہے۔ آخری 22 ٹیسٹ اننگز میں عبداللہ کی صرف ایک سنچری اور ایک ففٹی ہے۔ اس دوران وہ 4 بار صفر پر آؤٹ ہوئے۔ 12 بار سنگل ڈیجیٹ پر وکٹ دے بیٹھے اور 16 بار 20 سے کم اسکور بنا سکے۔ اب بتاؤ ایسی کارکردگی والے پلیئر کو کون سی ٹیم کھلاتی ہے؟ جیسن گلیسپی بھڑک اٹھے اس پر۔ اور کہا کہ تم کر لو سلیکشن۔۔ میں جا رہا ہوں۔

سینٹرل کنٹریکٹ پہ اختلاف کی بات کریں تو محمد یوسف کا مؤقف تھا کہ سینٹرل کنٹریکٹ ہمیشہ کارکردگی کی بنیاد پہ دیا جاتا ہے۔ جس کی جتنی اچھی پرفارمنس، اس کی اتنی ہی اچھی کیٹگری۔ سخت فیصلے کرنے چاہئیں۔ ٹھیک ٹھاک تنزلی کریں پرفارم نہ کرنے والے پلیئرز کی۔ مگر یہ بات بھی نہ مانی جیسن گلیسپی نے۔ وہ اس معاملے پر بھی کھلاڑیوں کی حمایت کرنے لگے۔ دھمکی دی کہ نہیں کرنے دوں گیا زیادہ  Demotionاور پھر اس معاملے پر بھی بلا کی گرما گرمی اور بحث ہوئی دونوں کے بیچ۔ معاملات اس قدر خراب ہو گئے کہ محمد یوسف نے عزت بچانے میں ہی عافیت جانی۔ انہوں نے کہا جب میری چل ہی نہیں رہی تو میں الگ ہو جاتا ہوں سلیکشن سے۔ اور پھر استعفا دے دیا۔ لیکن کوچنگ کی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے وہ۔

جہاں تک تعلق ہے کہ کس کا مؤقف صحیح ہے اور کس کا غلط تو بات ہے سادہ سی۔ محمد یوسف نے Logical بات کی۔ انہوں نے اپنے Stance کے حق میں دلائل دیے۔ جبکہ گلیسپی کے پاس اپنا مؤقف درست ثابت کرنے کے لیے ایک بھی دلیل نہ تھی۔ اسی لیے تو تقریباً سبھی کرکٹ پنڈت محمد یوسف کو درست قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلیسپی تبدیلیوں سے ڈر رہے ہیں۔ Defensive Approach اپنا رہے ہیں وہ۔ انہیں ڈر ہے کہ نئے پلیئرز انگلینڈ جیسی تگڑی ٹیم کے خلاف پرفارم نہیں کر پائیں گے۔ مطلب انہیں Non-Performers پر تو Confidence ہے لیکن پرفارم کرنے والوں پر نہیں۔ مگر پاور اور اختیارات گلیسپی کے پاس ہیں۔ اس لیے وہ محمد یوسف کو یہ جنگ ہرا گئے۔

مزیدخبریں