نوازشریف کو اشتہاری قرار نہیں دے رہے دس ستمبر کو عدالت پیش ہو جائیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ

05:59 PM, 1 Sep, 2020

اسد علی طور
 

اسد علی طور

صحافی


صُبح 8 بجکر 37 منٹ پر اسلام آباد ہائی ہائیکورٹ کے لیے نکلا تو تین مُختلف راستوں کو پولیس کی بھاری نفری کی طرف سے خار دار تاریں لگا کر بلاک دیکھ کر تنگ آکر چوتھے راستے کو بھی بلاک دیکھ کر جی ٹین میں سڑک کنارے ورک شاپس کے سامنے گاڑی پارک کردی۔ بارش جاری تھی، بھیگتا جوتے اور ڈائری بچاتا ٹریفک پولیس اہلکاروں کے پاس پہنچا اور پریس کا کارڈ دکھا کر داخلے کی اجازت مانگی انہوں نے مارکیٹ میں تھوڑا آگے کی طرف اشارہ کرکے وہاں سے انٹری بتائی۔ وہاں پہنچا تو سینئیر صحافی میاں شاہد چند دیگر صحافیوں کے ساتھ پولیس اہلکاروں سے داخلے کی اجازت مانگ رہے تھے اور حوالہ اُنہی پولیس اہلکاروں کا دے رہے تھے جنہوں نے ُمجھے بھیجا تھا لیکن کوششیں رائیگاں گئیں اور ہم سب کو ایک طویل چکر کاٹ کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمپلیکس کی طرف جانے کی اجازت ملی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے مرکزی دروازے پر اپنے اور ادارے کا نام لکھ کر اندر داخل ہوا تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمپاونڈ میں رینجرز کی بھاری نفری ٹولیوں کی صورت میں جگہ جگہ پر پوزیشن سنبھالے ہوئے تھی۔


بارش اور ہر ناکے سے واپس بھیجے جانے پر جُھلایا ہوا تھا تو فیس ماسک گاڑی میں بھول آیا تھا۔ فوراً باہر نکلا کے شاید کسی قریبی دُکان سے فیس ماسک مل جائے لیکن تمام دُکانیں بند تھیں، ایک پولیس اہلکار نے بے بسی دیکھ کر پوچھا کیا مسئلہ ہے؟ بتایا بھائی فیس ماسک چاہئیے۔۔ اُس نے ساتھی اہلکار سے کہا سامنے ناکے کے پار دُکان سے ماسک دیکھ دو اگر مل رہا ہے تو۔۔ جب دُکان سے ماسک نہ ملا تو پولیس اہلکار نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک صاف اور نیا ماسک مُجھے دے دیا کہ سر یہ آپ پہن لیں۔۔ میں نے مشکور ہوکر ماسک کے بدلے کُچھ کیش دینا چاہا جو اُس فرشتہ صفت پولیس اہلکار نے لینے سے انکار کر دیا۔۔ نام پوچھنے پر پتہ چلا بھائی کا نام قاسم محمود تھا اور رمنا تھانے میں تعینات تھے۔۔ میں نے قاسم بھائی کو سیلوٹ مار کر شُکریہ ادا کیا اور واپس اسلام آباد ہائیکورٹ آگیا۔


مُختلف کورٹ رومز سے گھومتا 10 بجکر 50 منٹ کے قریب اسلام ہائیکورٹ میں ڈویژن بینچ کے کمرہِ عدالت میں داخل ہوا تو ہاوس فُل تھا۔ کورٹ روم کے بائیں جانب فرنٹ پر صحافیوں کا گروپ موجود تھا۔ میں خاموشی سے اکیلا کمرہ عدالت میں سب سے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ن لیگ کے رُکن حامد علی فلکی پہچان کر میرے پاس آگئے اور کُچھ دیر اُن سے گپ شپ چلتی رہی۔۔ 11 بجکر 8 منٹ پر کمرہِ عدالت کے داخلی دروازے پر ہلچل پیدا ہوئی اور سکیورٹی اہلکاروں کے گھیرے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور اُنکے شوہر کیپٹن صفدر کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے۔ سب صحافی مرکزی نشست پر براجمان مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے اردگرد جمع ہوگئے۔۔ ن لیگ کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب میرے ساتھ ہی پچھلی قطار میں ٹہلتے ہوئے صحافیوں اور مریم نواز کی گفتگو کا مُشاہدہ کررہی تھیں۔ میں سبز فیس ماسک پہنے آہستہ آہستہ کھسکتا مریم نواز کے قریب چلا گیا اور اُن کے بالکل سامنے موجود سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔روزنامہ ڈان کے سینئر صحافی ملک اسد مریم نواز سے سب دوستوں کا تعارف کرواتے ہوئے گفتگو کررہے تھے۔ مطیع اللہ جان نے ہلکے پُھلکے انداز میں شریر مُسکراہٹ سجائے مریم نواز سے پوچھا آپ کا پسندیدہ پیزا کونسا ہے؟ مریم نواز جنرل عاصم باجوہ کے متعلق کی گئی شرارت کو بھانپ گئیں اور انہوں نے صرف کمرہِ عدالت میں موجود ہر شخص کے قہقے میں حصہ ڈالنے پر ہی اکتفا کیا۔ اے آر وائے نیوز کے صحافی حسن ایوب نے سوال پوچھا کہ کیا آپ کو پیپلزپارٹی پر اعتماد ہے کہ وہ اپوزیشن کا ساتھ دے گی؟ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے جواب دیا کہ وقت آگیا ہے تمام اپوزیشن جماعتیں پاکستان کی خاطر ایک صفحے پر جمع ہوجائیں۔ ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے بتایا کہ اُنکے والد سابق وزیراعظم نوازشریف پاکستان واپس آنے کے لیے بے چین ہیں۔ اسی دوران عدالتی عملے اور پولیس اہلکاروں نے درخواست کی کہ برائے مہربانی کمرہِ عدالت کو پریس کانفرنس روم میں نہ بدلیں جس کے بعد سب صحافی واپس چلے گئے لیکن میں اور مطیع اللہ جان مریم نواز کی نشست کے سامنے عدالت کی لکڑی کی ٹیبل سے لگ کر کھڑے ہوگئے۔ 11 بجکر 29 منٹ پر سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے تو مریم نواز نے کھڑے ہوکر اُنکا استقبال کیا۔ تھوڑی دیر میں بیرسٹر ظفراللہ، سینیٹر پرویز رشید، ایم پی ایز حنا پرویز بٹ اور مریم نواز کی دیرینہ ساتھی ثانیہ عاشق بھی کمرہِ عدالت میں آگئے۔ بیرسٹر ظفراللہ نے مطیع اللہ جان کو دیکھ کر ہنستے ہوئے پاس آکر مذاق میں کہا کہ آپ کے آخری دو پروگرام یوٹیوب پر دیکھے آپ کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کیوں نہیں ہورہا؟ مطیع بھائی نے ہنستے ہوئے جواب دیا میرے میں ن لیگ کا سافٹ وئیر انسٹال نہیں ہےجو اپ ڈیٹ ہوتا رہے۔۔ سب نے اُنچا قہقہ لگایا۔ تھوڑی دیر میں سینیٹر ڈاکٹر مُصدق ملک، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور امیر مقام کمرہِ عدالت میں داخل ہوگئے۔ مریم اورنگزیب نے نشست شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے لیے فوراً خالی کردی اور مریم نواز نے بھی احترام میں کھڑے ہوکر اپنے والد کے ساتھی دونوں سینئرز کو ویلکم کہا۔ شاہد خاقان مریم نواز کے دائیں جانب کرسی پر اور اُنکے ساتھ والی کُرسی پر احسن اقبال بیٹھ گئے۔


گیارہ بجکر کورٹ آگئی کی آواز لگی اور جسٹس عامر فاروق دائیں اور جسٹس محسن اختر کیانی بائیں ہاتھ آکر بیٹھ گئے۔ جسٹس عامر فاروق نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ کمرہِ عدالت میں رش کی وجہ سے اگر کورونا پھیل گیا تو بہت افسوسناک بات ہوگی۔ جسٹس عُمر فاروق نے باقائدہ سماعت کا آغاز کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ دو اپیلیں ہیں ایون فیلڈریفرنسر اور العزیزیہ ریفرنس آپ نے کِس میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایون فیلڈ میں سزا معطل ہے اور العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو ہیلتھ گراونڈ پر آٹھ ہفتے کی ضمانت دی گئی تھی جو معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت ہے تو عدالت اُس پر کوئی ایسا آرڈر مت دے جو لاہور ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت کیس پر اثر انداز ہو۔ جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے آٹھ ہفتے بعد ضمانت میں توسیع کے لیے پنجاب حکومت سے رجوع کرنے کو کہا تھا تو کیا ضمانت میں توسیع ہوگئی؟ خواجہ حارث نے دھیمی آواز میں جواب دیا کہ اب نواز شریف ضمانت پر نہیں ہیں اور اُنہیں اپنے آپ کو حُکام کو سرینڈر کرنا ہوگا۔ جسٹس عامر فاروق نے اگلا سوال پوچھا کہ کیا سرینڈر کریں گے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سر وہ علاج کے لیے بیرونِ مُلک گئے تھے لیکن پنجاب حکومت نے اُنکی غیر موجودگی میں ضمانت منسوخ کردی ہے۔ خواجہ حارث نے نوازشریف کی بیماری اور ضمانت کے بیک گراونڈ کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے حکومت نے دو میڈیکل بورڈز بنائے ایک سرکاری اور دوسرا نجی۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ دونوں بورڈز نے تجویز دی کہ نوازشریف کو بیرونِ مُلک علاج کے لیے بھیجا جائے جِس پر وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت سے رپورٹ لی اور پنجاب حکومت نے بھی بیرونِ مُلک بھیجنے کی تجویز دی تو وفاقی حکومت نے معاملہ وزارتِ داخلہ کی ذیلی کمیٹی کے سامنے رکھا جِس نے سابق وزیراعطم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی رائے دی جِس کی وفاقی حکومت نے توسیع کردی لیکن سات ارب کا اسکیورٹی بانڈ جمع کروانے کی شرط رکھ دی جِس کو سابق وزیراعظم نے لاہور ہائیکورٹ کے سامنے چیلنج کردیا اور لاہور ہائیکورٹ نے نوازشریف اور بھائی شہباز شریف سے تحریری انڈرٹیکنگ لے کربیرونِ مُلک جانے کی اجازت دے دی۔ جسٹس عامر فاروق نے سوال پوچھا کہ کیا انڈر ٹیکنگ کے مُطابق آپ نے سابق وزیراعظم کی میڈیکل رپورٹس پنجاب حکومت کو جمع کروائیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا جنوری 2020 میں کروائیں تھیں۔ جسٹس عامر فاروق نے سوال پوچھا تو ضمانت کب کینسل کی پنجاب حکومت نے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 27 فروری 2020 کو۔ جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے استفسار  کیا تو پھر اب کیا ہوگا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سر اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ وطن واپسی کے سفر کے قابل ہیں یا نہیں؟


اب پہلی بار جسٹس محسن اختر کیانی نے مُداخلت کی اور ریمارکس دیئے کہ ضمانت اور ای سی ایل دو مُختلف معاملے ہیں جبکہ یہاں معاملہ دو مُقدمات میں ضمانت کا ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سر وہ علاج کی غرض سے ضمانت پر بیرونِ مُلک گئے ہیں اور ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ جان بوجھ کر قانون کے سامنے سرینڈر کرنے سے انکاری ہوکر بیرونِ مُلک رہنا چاہتے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ انڈر ٹیکنگ کے دوسرے پیرا گراف میں لکھا کہ وفاقی حکومت کا نمائندہ لندن میں جاکر خود نوازشریف کی صحت سے متعلق دریافت کرسکتا ہے اور معالج سے علاج پر پیش رفت پر رپورٹ لے سکتا ہے کیا ایسا ہوا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مُطابق ایسا کُچھ نہیں ہوا۔ نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ سے عدالت نے پوچھا تو اُنکا جواب بھی نفی میں تھا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر نواز شریف ہسپتال میں داخل نہیں ہیں تو معاملہ مُختلف ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ نوازشریف کیا سفر کے لیے فٹ ہیں؟ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نوازشریف سفر کے قابل ہیں یا نہیں یہ پنجاب حکومت نہیں وفاقی حکومت طے کر سکتی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے آبزرویشن دی کہ پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ نہیں ہمارے حُکم پر ضمانت منسوخی کاُ فیصلہ لیا۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی سر ابھی تک آپکا فیصلہ اسٹینڈ کرتا ہے۔  جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ جی بالکل اگر آپ نے ہمارا فیصلہ چیلنج نہیں کیا تو وہی حتمی مانا گیا ہے۔خواجہ حارث نے ایک بار پھر نُکتہ اُٹھایا کہ پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ نوازشریف سفر کے قابل ہیں یا نہیں۔ جسٹس مُحسن اختر کیانی نے آبزرویشن دی کہ نوازشریف میڈیکلی فٹ ہیں یا نہیں اِس کو ثابت کرنے کے لئے آپ نے کوئی دستاویز جمع تو کروائی نہیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تازہ رپورٹ آگئی ہے دفترِ خارجہ تصدیق کروانے بھیجی ہے اور آج کسی وقت عدالت کے سامنے جمع کروادیں گے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ عدالت رپورٹ دکھا کر فیصلہ کر سکتی ہے لیکن آپ نے ابھی سے حاضری سے استثنی مانگ لیا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال پوچھا آپ نے پنجاب حکومت کا فیصلہ چیلنج کیا؟ نفی میں جواب ملنے پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو عدالت کو یقین دلانا ہوگا کہ نوازشریف ہر صورت پاکستان آناُ چاہتے ہیں اگر وہ ہسپتال داخل نہیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ تو وفاقی حکومت کو طے کرنا ہوگا۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اب وہ ضمانت پر نہیں ہیں تو معلوم نہیں اشتہاری کہا جائے گا یا نہیں۔ اِس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے وضاحت کی کہ عدالت نے ابھی تک سابق وزیراعظم نوازشریف کو اشتہاری قرار نہیں دیا اور نہ ایسا کوئی آرڈرُ دیا ہے۔


اِس کے بعد عدالت نے نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ کو دلائل کی دعوت دی۔ جہانزیب بھروانہ نے دلائل کا آغاز جج ارشد ملک کی وڈیو اور آڈیو سے کیا تو جسٹس عامر فاروق نے اُنہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی اُس طرف نہیں جارہے۔ جہانزیب بھروانہ نے اب اعلان کردیا کہ وہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی دونوں اپیلوں میں حاضری سے استثنی کی درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے کو چیلنج کررہے ہیں۔ خواجہ حارث نے پاس سے لُقمہ دیا کہ استثنیٰ ایک میں مانگا ہے دوسرے میں وہ پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ سے پوچھا کہ بالفرض ضمانت طے شُدہ مُدت کے لیے نہ ہوتی اور حاضری سے استثنیٰ کا سوال آتا تو آپ کیا کہتے؟ جہانزیب بھروانہ نے جواب دیا کہ اپیلوں پر اپیل کُنندہ کا آنا لازمی ہے اور اگر وہ نہیں آتا تو یہ عدالت وارنٹ جاری کرکے اشتہاری قرار دے۔ جہانزیب بھرانہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں ای سی ایل کا معاملہ ہے ضمانت کا نہیں۔ جہانزیب بھروانہ کا اِس موقع پر کہنا تھا کہ نوازشریف نے آج تک ضمانت منسوخی کے فیصلے اور آپ کے آرڈر سے ریلیف کے لیے کسی عدالت سے رجوع نہیں کیا اِس لیے اشتہاری قرار دیا جائے۔ نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ کا اِس موقع پر کہنا تھا کہ مریم بی بی اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس عامر فاروق نے دونوں اطراف کے دلائل سُننے کے بعد ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی اشتہاری قرار نہیں دے رہے اور نہ ہی وارنٹ جاری کررہے ہیں صرف نوازشریف کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے وقت دے دیتے ہیں۔ خواجہ حارث نے عدالت کو تجویز دی کہ بہتر ہوگا آپ پہلے سرینڈر کا موقع دیں اور اُس کے بعد ہمیں سُنیں کہ وہ کیوں پیش نہیں ہوسکتے پھر فیصلہ دیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کو وطن واپسی پر گرفتاری کا خدشہ ہے تو آپ درخواست دیں ہم تحفظ دے دیں گے۔ ججز اور خواجہ حارث کے درمیان کافی بحث کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رُکنی ڈویژن بینچ نے سابق ویراعظم نوازشریف کو دس ستمبر تک وطن واپس آکر عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کی مہلت دے کر سماعت دس ستمبر تک مُلتوی کردی۔
مزیدخبریں