علی نواز اعوان صاحب جھٹ سے بولے کہ برطانیہ سے ہماری بات چیت بڑی اچھی چل رہی تھی، ہم نے انہیں منا لیا تھا، تقریباً 90 فیصد بات طے ہو چکی تھی اور ہم ریڈ لسٹ سے نکلنے ہی والے تھے کہ اچانک سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی جعلی میڈیکل رپورٹس جمع کروا دیں جس کے بعد برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ اگر تین مرتبہ کا سابق وزیرِ اعظم جعلی رپورٹس جمع کروا سکتا ہے تو پھر پاکستان پر کیسے اعتبار کیا جائے۔ لہٰذا انہوں نے ہمیں ریڈ لسٹ میں ہی برقرار رکھا۔ علی نواز اعوان اپنی ٹرین کو بریک لگانے کو تیار نہیں تھے مگر برا ہو باقی دونوں مہمانوں کا جن کا پنجابی محاورے والا نہیں، واقعتاً ہاسہ نکل گیا۔ غریدہ فاروقی نے بھی پوچھا یہ آپ نے کیا کہا؟ ن لیگی رہنما رانا تنویر حسین ہنستے ہوئے بولے، آپ نے علی نواز اعوان کی دلیل سنی ہے؟ پیپلز پارٹی کے چودھری منظور گجر بھی ہنسنے لگے۔ اپنی لمبی چھوڑی ہوئی گپ کا علی نواز اعوان کو بھی اندازہ ہو گیا کہ یہ چلنے کی نہیں، انہوں نے بھی دانت نکال لیے۔ دانت نکالنے سے مراد خدانخواستہ یہاں ان کی تضحیک کرنا نہیں، واقعتاً انہوں نے دانت ہی نکالے تھے کیونکہ اسے ہنسی نہیں کہا جا سکتا۔
اب حقیقت کیا ہے؟ حقیقت اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ برطانیہ نے اپنے ایک خط میں پاکستانی حکومت کو بتایا ہے کہ آپ کے ملک میں ٹیسٹنگ انتہائی کم ہے۔ پنجاب، جو کہ سب سے بڑا صوبہ ہے، یہاں باقی صوبوں اور قومی شرح سے بھی کم شرح میں لوگوں کے کورونا وائرس ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ کورونا کا ایک مختلف variant یہاں موجود ہے، لیکن یہ variant کیا ہے، اس کے بارے میں خود پاکستانی حکومت کو بھی نہیں پتہ۔
یہاں یہ یاد رہے کہ گذشتہ برس نیا دور پر متعدد رپورٹس اور پروگرامز میں بتایا گیا تھا کہ حکومت کی حکمتِ عملی یہ نظر آ رہی ہے کہ ٹیسٹ کم کیے جائیں اور یوں اصل تعداد کبھی سامنے ہی نہ آئے۔ سکندر کرمانی کی اس ہوش اڑا دینے والی رپورٹ نے بھی کسی کے کان پر جوں تک رینگنے جتنی ہلچل پیدا نہیں کی کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے قبرستانوں اور بڑے اسپتالوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں دگنی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے میو اسپتال کے ایک سینیئر ڈاکٹر نے 6 اپریل کو بتایا تھا کہ پنجاب حکومت کا ٹیسٹنگ کرنے کا معیار عالمی ادارۂ صحت کے دیے گئے معیار سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ہمیں صرف ان لوگوں کی ٹیسٹنگ کرنے کو کہا گیا ہے جن کی علامات شدید ہیں۔ ان میں سے بھی صرف ان مریضوں کے کورونا وائرس ٹیسٹ کرنے کو کہا جا رہا ہے جو کسی دوسرے ملک سے سفر کر کے آئے ہوں۔ "جب کوئی مریض اسپتال پہنچتا ہے تو وہ سیدھا ایمرجنسی میں داخل ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا، ہم ایسے افراد کے ٹیسٹ نہیں کر رہے جو بیرونِ ملک سے سفر کر کے پاکستان نہیں آئے یا جن کی علامات شدید نہیں۔ لہٰذا اگر وہ ٹیسٹ سے پہلے ہی مر جائیں تو ہم انہیں کورونا سے ہوئی اموات میں نہیں گنتے، چاہے ان میں کورونا کی عالامات موجود ہوں۔ اسپتال رپورٹس میں رد و بدل کر رہے ہیں۔ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اموات کی وجہ دل کا عارضہ یا گردوں کا کام کرنا چھوڑ جانا وغیرہ لکھ دیا جائے"۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم تو ایسے افراد تک جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پہنچ رہے ہیں جو کسی کورونا کے مریض سے رابطے میں آئے ہوں اور ان تمام لوگوں کے بھی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارۂ صحت کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب برطانوی حکومت کا خط اس سے بالکل مختلف صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
اُس وقت نیا دور یا ایسے دیگر صحافتی ادارے یا ڈاکٹر حضرات جو حکومتی اقدامات پر سوال اٹھاتے، انہیں فیک نیوز قرار دیا جاتا تھا۔ اب جب برطانوی حکومت وہی سب کچھ کہہ رہی ہے تو الزام نواز شریف پر ہے۔
پراپیگنڈا کی ایک تکنیک یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ ہر وقت خود کو پراپیگنڈا کا شکار قرار دیں۔ ڈانلڈ ٹرمپ کو دیکھ لیجئے۔ اس شخص نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں اتنے جھوٹ بولے کہ شاید ہی کسی اور حکمران نے ماضی میں بول رکھے ہوں گے۔ لیکن یہ ہر وقت سوال کرنے والوں پر سوال اٹھاتا رہتا۔ جو چینل اس کی تعریفوں کے پل نہ باندھتا رہے، یہ اسے مسلسل فیک نیوز قرار دیا کرتا تھا۔ اس کے حامی بھی اس کے اس پراپیگنڈے کو درست مان کر ان چینلز کو فیک نیوز قرار دیتے اور نتیجتاً ان کے لیڈر کے خلاف کوئی بھی رپورٹ بڑے آرام سے یہ کہہ کر رد کی جا سکتی تھی کہ یہ تو پراپیگنڈا اور فیک نیوز ہے۔ اور جو میڈیا اپنے ساتھ ہو، وہ تو ویسے ہی کاروبار آپ کے بل پر کرتا ہے۔ اس طرح ایک ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ بیک وقت سب کچھ سچ اور سب کچھ جھوٹ لگنے لگتا ہے۔ تنقید کرنے کی اجازت بھی ہوتی ہے اور تنقید کی وقعت بھی عوام الناس کی نظروں میں ختم ہو جاتی ہے۔
بھارت میں اس کی مثالیں بہت آسانی سے ملیں گی۔ تقریباً تمام میڈیا سرکاری میڈیا کی طرح کی کہانیاں دن رات سناتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان اب اسے 'گودی میڈیا' کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ یہ ہمہ وقت مودی کی گودی میں بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔ جو سوال کرے، اس کو جواب ملتا ہے پاکستان چلے جاؤ۔ یوں آپ کا سوال اٹھانا دراصل غداری کے مترادف ہے۔ مگر آپ کبھی مودی جی کے حامیوں سے پوچھیے، وہ کہیں گے سب پراپیگنڈا ہو رہا ہے۔ نیا دور کی ویڈیوز اور پروگرامز پر اکثر یوٹیوب پر آپ کو اس قسم کے تبصرے ملیں گے کہ بھارت میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں۔
پاکستان میں موجودہ حکومت نے ان دو حکومتوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سب سے پہلے تو یہاں بھارتی ایجنٹ کا الزام لگانا سب سے آسان بنایا گیا۔ یہ کام پچھلی حکومت کے دور میں ہی طاہرالقادری صاحب نے شروع کر دیا تھا جنہوں نے الزام لگایا کہ نواز شریف کی فیکٹریوں میں 350 بھارتی شہری کام کر رہے ہیں۔ ثبوت نہ ہو سکتا تھا، نہ ان کے حامیوں نے سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔ میڈیا کا ایک حصہ دن رات پریس کانفرنس دکھاتا رہا اور اسے الہامی کتاب جیسی سچائی تصور کرتے ہوئے سوال کرنے سے گریزاں رہا۔ لیکن اس سے زیادہ مزیدار کہانی ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور حکومتی کارندوں کی ہے جو ہر ایسی خبر کو فیک نیوز قرار دیتے ہیں جو ان کو پسند نہ آئے اور ہر ایسے مضمون کو پراپیگنڈا قرار دیتے ہیں جو ان پر تنقید کر رہا ہو۔ لیکن دراصل سب سے زیادہ فیک نیوز حکومتی کارندے خود پھیلا رہے ہوتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ ہفتے، دس دن میں یہاں اتنی دولت کی ریل پیل ہوگی کہ ریڑھی والا بھی کہے گا میرے سے ٹیکس لے لو۔ کوئی کہتا ہے وزیر اعظم کا ہیلی کاپٹر 55 روپے فی کلومیٹر میں چلتا ہے۔ خود وزیر اعظم پاکستان میں ترقی و خوشحالی دکھانے کے لئے بھارتی ویب سائٹ سے تصاویر اٹھاتے پائے جاتے ہیں۔ جھوٹا پراپیگنڈا پھیلانے کے لئے پوری پوری ٹیمیں موجود ہیں۔ سیاسی مخالفین سے متعلق تو جھوٹ ثواب کا کام سمجھ کر پھیلایا جاتا ہے۔ مریم اورنگزیب لاکھ کہیں، تو جواب میں اسے کروڑ کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ محض چند مثالیں ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق جیسی جیسی خرافات سوشل میڈیا پر موجود ہیں، کوئی اور حکومت ہوتی تو کب کے یہ سب اکاؤنٹ بند ہو چکے ہوتے۔ لیکن یہاں جھوٹ ہی سکہ رائج الوقت ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، اپنی میڈیا پالیسی کو بدلے، الزامات، غصہ اور خود کو پراپیگنڈا کا شکار بنا کر پیش کرنا ان کی گورننس کی مشکلات میں اضافہ تو کر سکتا ہے، کمی نہیں۔