چوکی جنڈ کے رہائشی 50 سالہ کاشت کار سیف الرحمن نے دریا کُرم کے کنارے کھڑے ہوکر اپنے دائیں ہاتھ سے دریا کی طرف اشارہ کیا اور کہا " یہ دریا ہے اور یہ ہمارے گھر ہیں بس اب تو چند فٹ کا فاصلہ رہ گیا ہے"۔ سیف الرحمن نے اپنے گاؤں کے خوف و ہراس کی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے ڈر سے بچے کھانا نہیں کھاتے وہ ڈرے ہوئے ہیں، ہمیں نیند نہیں آتی، ہم اپنے گھروں میں خواتین کو تسلی دیتے ہیں لیکن وہ تسلی بے سود ہے، اب ہمارا سارا گاؤں خطرے میں ہے۔ سیف الرحمن اپنے آباواجداد سے اس گاؤں میں رہتا ہے اس نے آئی بی سی کو بتایا کہ دریا کُرم کا تیزی سے گاؤں کی طرف کٹاؤ جاری ہے۔ حکومت نے چند سال پہلے حفاظتی پشتہ تعمیر کیا تھا لیکن وہ بھی 3 سال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے۔
اس سٹوری کو کور کرنے کیلئے اپنے ساتھی رپورٹر غلام اکبر اور کیمرہ مین محمد رحمان کے ہمراہ دریا کے کنارے موجود تھے کہ گاؤں کے دوسرے 37 سالہ زمیندار سید الرحمن بھی ہم سے ملنے کیلئے وہاں آئے۔ سید الرحمن نے بتایا کہ گاؤں کے لوگ اسلئے زیادہ خوفزدہ ہیں کیونکہ 2010 کے سیلاب میں چوکی جنڈ گاؤں کے بہت سے لوگوں کی زیر کاشت زمین بہہ گئی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 2010 میں چوکی جنڈ گاؤں کے لوگوں کی تقرییا 5000 کنال سے زائد زرعی اراضی سیلاب کی نذر ہوچکی تھی جو گاؤں والوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔ اورآج سے 10 سال پہلے دریائے کُرم چوکی جنڈ گاؤں سے ڈھائی کلومیٹردور بہتا تھا۔ سید الرحمن نے ہاتھ کے اشارے سے وہ جگہ ہمیں دیکھانے کہ کوشش کی کہ کس طرح وہ ڈھائی کلومیٹر پیدل چل کر کُرم کے کنارے جاتا تھا اور وہاں اپنے کھیتوں میں زمینداری کرتا تھا، لیکن اب وہاں صرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا۔
لکی مروت میں دریا کرم کے علاوہ دریائے گمبیلا بھی بہتا ہے جو افغانستان سے وزیرستان کے راستے لکی مروت میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے گمبیلا جسے وزیرستان اور بنوں میں دریائے ٹوچی کہا جاتا ہے، چوکی جنڈ سے مغرب کی جانب 4 کلومیٹر دور وانڈہ پائندہ خان کے مقام پر دریا کُرم میں شامل ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ 2010 کے سیلاب میں گاؤں چوکی جنڈ سمیت وانڈہ پائندہ خان کے لوگوں کی زیر کاشت زمین بھی بہہ گئی تھی۔ چوکی جنڈ اور وانڈہ پائندہ خان کے جن لوگوں کی زرعی زمین سیلابی ریلوں کی نذر ہوئی تھی وہ نوجوان اور خواتین گندم کٹائی کی مزدوری کیلئے اب ہر سال جنوبی پنجاب جاتے ہیں۔
جولائی 2021 کے آخری ہفتے میں جب دریا کرم کی تیز لہروں نے چوکی جنڈ کی جانب تیزی سے کٹاؤ جاری رکھا تو گاؤں کے تمام لوگ اتنے خوف زدہ ہو گئے کہ گھروں میں ضروری سامان اکھٹا کرکے پیک کرنے لگے ، سید الرحمٰن نے کہا کہ بچے رونے لگے اور ہر گھرمیں خواتین نے قران پاک کی تلاوت شروع کر دی۔ پورے گاؤں میں ایک خوف کی فضا تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال جولائی اور اگست کے مہینے میں گاؤں پر سیلاب آنے کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔
گاؤں چوکی جنڈ کے تمام لوگ اس بات سے لاعلم ہیں کہ سیلاب آنے کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ البتہ دنیا کے سائنسدانوں کے مطابق سیلاب آنے کی واحد وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ گاؤں چوکی جنڈ کے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ 9 اگست کو اقوام متحدہ کی آب ہوائی تبدیلی کیلئے مختص عالمی بین الحکومتی ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائیمیٹ چینج ( آئی پی سی سی) کی نئی رپورٹ نے دنیا بھرمیں خوفناک موسمی واقعیات کے آنے کا عندیہ دیا ہے۔
آئی پی سی سی کی نئی چھٹی اسسمینٹ رپورٹ میں پہلی بار یہ واضح ہوا کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پچھلے 40 سالوں میں درجہ حرارت اتنی تیزی سے بڑھ گیا ہے جس کی مثال گزرے ہوئے 2000 سالوں میں بھی نہیں ملتی۔ دنیا کو اب شدید موسمی واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سمندر میں پانی کی سطح بلند ہونگی، گرم ہوائیں چلیں گی، جنگلات میں آگ لگے گی، خشک سالی بڑھے گی، شدید بارشیں ہونگی اور سیلاب آنے کا خطرہ بڑھے گا۔ آئی پی سی سی کی یہ نئی رپورٹ پچھلے رپورٹس سے اسلئے بھی منفرد ہے کہ اس میں دنیا کے تمام رہنماؤں کو واضح طور بتایا گیا ہے کہ دنیا میں انسانی سرگرمیوں کے باعث درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے اور اگر گرین ہاؤس گیسز میں کمی نہ کی گئی تو آئندہ 20 سالوں میں شدید موسمی واقعات کے اضافے کے باعث بڑے پیمانے پر لوگوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد غیر سرکاری عالمی ادارے انٹر نیوز کے پراجیکٹ ارتھ جرنلزم نیٹ ورک کے توسط سے ایک ویبنار منقعد ہوا۔ اس ویبنار میں آئی پی سی سی کی نئی رپورٹ پر تفصیل سے بحث ہوئی۔ آئی پی سی سی کی وائس چیئر کورلینا ایرس جو ارجنٹینا کی یونیورسٹی آف بوینس آئرس میں پروفیسر ہے نے ویبنار میں بتایا کہ آب ہوائی تبدیلی کے اثرات پوری دنیا میں نمایاں ہیں اوردرجہ حرارت بڑھنے سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پروفیسر نے مزید بتایا کہ سمندر کا پانی گرم ہوتا جا رہا ہے جس سے سمندری حیات کو خطرہ ہو سکتا ہے اور پانی کی سطح بھی بلند ہو رہی ہے۔ کورلینا نے کہا کہ آب ہوا کا انحصار اب ہمارے یعنی انسانی فیصلوں پر منحصر ہے۔
انڈیاسے تعلق رکھنے والی سائنسدان سواپنا پانیکال جو آئی پی سی سی رپورٹ کی ورکنگ گروپ چیپٹر 4 کی لیڈ رائٹر ہیں نے ویبنار میں بتایا کہ ساوتھ ایشیا میں 1950 سے لیکر اب تک درجہ حرارت زیادہ بڑھنے کے ٹھوس شواہد ہیں، جسکے باعث شدید موسمی واقعات میں اضافہ ہوا۔ سواپنا نے بتایا کہ اکیسویں صدی کے آغاز سے اب تک ہمالیہ کے پہاڑوں پر موجود برف پگھل رہی ہےاور مستقبل میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے مزید برف پگھلنے کے امکانات زیادہ ہونگے۔
پاکستان پر آب ہوائی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے پشاور یونیورسٹی میں انوائرمنٹل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف خان خٹک نے بتایا کہ عالمی گرمائش کی وجہ سے پاکستان پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے خطرے کی بات یہ بھی ہے کہ جرمن واچ نامی ادارے کے مطابق پاکستان آب ماحولیاتی بحران سے سب سے زیادہ 10 متاثرہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔
پروفیسر نے مزید بتایا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف اثرات ہوتے ہیں کیونکہ ہرعلاقے کی آب ہوا مختلف ہوتی ہے، کہیں پر بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو کہیں پر خشک سالی ہوتی ہے، خاص کر شہروں میں گرمی زیادہ ہوجاتی ہے اور کہیں پر پہاڑوں پر جمی برف درجہ حرارت کے زیادہ ہونے سے پگھل جاتی ہے جس سے سیلاب آنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔ پروفیسر خٹک نے آئی پی سی سی کی رپورٹ کو دنیا کے تمام رہنماؤں کیلئے ایک آئینہ قرار دیا۔
ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات سے بے خبر گاؤں چوکی جنڈ کے بچوں کا مستقبل کیسا ہوگا؟ کیا وہ یہ گاؤں چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوں گے؟ ان کا یہ خوف کب ختم ہوگا؟
گاؤں چوکی جنڈ سے تعلق رکھنے والے بیس سالہ نوجوان رفعت اللہ خان جو پاکستان تحریک انصاف کے ورکر ہیں نے آئی بی سی کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ سے لیکر وزیر اعلی تک کو اس مسئلے سے آگاہ کر چکا ہوں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی زرتاج گل کے توسط سے وزیر اعلی نے اُس سے رابطہ کیا لیکن ابھی تک اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جا سکا۔ رفعت اللہ نے بتایا کہ دریا کا کٹاؤ گاؤں کی جانب ہر سال بڑھ رہا ہے اور اب تو فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے اگر حکومت نے اس حوالے سے فوری اقدامات نہیں لیئے تو چوکی جنڈ کے لوگ پشاور میں وزیر اعلی ہاؤس کے سامنے پر امن احتجاج پر مجبور ہوں گے۔
آئی پی سی سی کی چھٹی اسسمنٹ رپورٹ میں دنیا میں شدید موسمی واقعات میں اضافے کی نشاندہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کلیئے دنیا کے ملکوں میں کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔