نیلم جہلم پاور پراجیکٹ: غیر قانونی طور پر 1 کروڑ 20 لاکھ کا ایندھن پھونک جانے والا افسر دوبارہ سی ایف او تعینات

01:30 PM, 2 Apr, 2020

عبداللہ مومند
نیلم جیلم پراجیکٹ اندھیر نگری چوپٹ راج کی تصویر بن چکا ہے جہاں قانون با اثر افسران کا اسیر ہے۔ اور دل بے رحم افسران ملکی خزانے کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اب اس پراجیکٹ کے حوالے سے ایسی ہی کرپشن اور بے ضابطگیوں کی ہوشربا داستان سامنے آئی ہے جس کے مطابق ایندھن کی مدد میں ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی بے ضابطگیوں کی انکوائری کا سامنا کرنےوالے افسر کو دوبارہ پراجیکٹ کا چیف فنانس آفیسر بنادیا گیا ہے۔نیا دور میڈیا کو مصدقہ زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ افسر پر نیلم جہلم پاور پراجیکٹ میں ہی ایندھن کی مد میں ایک کروڑ بیس لاکھ کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کا الزام ہے اور اس حوالے سے انکوائری چل رہی تھی۔ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے  غیر قانونی طور پر  ایندھن کی مد میں پھونکنے  والے اس افسر کو پراجیکٹ کے CFO کے طور پر دوبارہ اپنے عہدے پر بحال کر دیا گیا ہے اور انھوں نے پراجیکٹ کے CFO کے طور پر دوبارہ کام شروع کیا ہے۔

نیا دور میڈیا کو دستیاب  دستاویزات کے مطابق پراجیکٹ کے CFO حامد محمود پر سال 2018 میں پراجیکٹ کے بورڈ نے قانونی اعتراضات اُٹھاتے ہوئےمطالبہ کیا تھا کہ نہ صرف وہ غیر قانونی طور پر پیپرا قوانین کے خلاف بھرتی ہوگئے ہیں بلکہ ان کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ قابلیت اتنی نہیں کہ انکو نیلم جہلم پاور پراجیکٹ جیسے ادارے کا CFO  لگایا جائے۔واضح رہے کہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ پانچ ارب ڈالرز کے تخمینے سے مکمل کیا گیا تھا۔ مگر اثر رسوخ رکھنے والے عناصر کے دباؤ میں غیر پیشہ ورانہ لوگوں کو بھرتی کرکے پراجیکٹ کو نقصانات سے دو چار کیا گیا۔ نیا دور میڈیا نے گزشتہ ماہ نیلم جہلم پراجیکٹ میں 6 ماہ کے دوران دو کروڑ  روپے مالیت کے ایندھن کی چوری ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ جس کے بعد ایک انکوائری کمیٹیقائم کی گئی اور پراجیکٹ کے CFO کو بھی انکوائری میں شامل کیا گیا۔ نیا دور میڈیا کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پراجیکٹ کے CFO نے اپنی تین سالہ دورانیے کی ملازمت کے دوران  اپنی ذاتی گاڑی میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کا فیول استعمال کیا تھا جب کے اپنی زاتی گاڑی میں انجن تبدیل کرنے کے لئے 36 لاکھ روپے اڑائے تھے یہ کل ایک کروڑ 56  لاکھ کی رقم کا ٹیکہ قومی خزانے کو لگایا گیا۔  جس پر اُن کو انکوائری کا سامنا ہے۔ وزارت آبی وسائل نے پراجیکٹ کے CFO کی بھرتی دوران  پیپرا قوانین کی خلاف ورزی پر ایک انکوائری کمیٹی قائم کی تھی مگر تاحال وہ کمیٹی کوئیواضح نتائج سامنے نہیں لاسکی۔

زرائع کے مطابق نیلم جہلم پاور پراجیکٹ میں غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے والے CFO کے خلاف جب میڈیا میں کرپشن کی خبریں شائع ہوئی تو ادارے نےپیپرا قوانین کے مطابق ادارے کے سی ایف او کے چناوٗ کے لئے اشتہار دیا۔ زرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ  اس عہدے کے لئے  40 امیدواروں  نے اپنی درخواستیں جمع کرائیں مگران میں صرف دو اہلکاروں کو انٹرویو کے لئے بلایا گیا تاکہ مذکورہ بااثر CFO کودوبارہ اس پوزیشن پر برقرار رکھا جائے۔نیا دور میڈیا نے جب انٹرویو کے لئے بلائے گئے امیدواروں سے رابطہ کیا توانھوں نے نیا دور میڈیا کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ کہ کل چالیس امیدواروں نے ادارے کی CFO کی پوزیشن کے لئے درخواستیں جمع کرائیں مگر دو کو بلایا گیا۔

دو مہینے گزرنے کے باوجود تاحال ان دو افراد کو بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں مختلف زرائع سے معلوم ہوا کہ حامد محمود کو دوبارہ اسی پوزیشن پر لگایا جائے گا کیونکہ ان کے رسائی اعلی شخصیات تک ہے۔وزارت آبی وسائل کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ماضی میں بھی پراجیکٹ میں کرپشن کی گئی اور تاحال ادارہ کرپشن کی زد میںہے۔ مگر حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پراجیکٹ کے CEO اور CFO وزارت آبی وسائل میں گہرے اثر رسوخ کے حامل ہیں جن کیوجہ سے ان کو ہر بار چھوٹ مل جاتے ہیں۔۔نیا دور میڈیا نے وزارت آبی وسائل کے جوائینٹ سیکریٹری مہر علی شاہ سے جب رابطہ کیا  اور اس حوالے سے پوچھا کہ پراجیکٹ کے اعلیٰ افسر کو کیسے دوبارہ اس پوزیشن پر تعینات کیا گیا جس کو ایک کروڑ بیس لاکھ روپے فیول کے غیر قانونی استعمال کی انکوائری کا سامنا ہے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وزارت آبی وسائلکے جائینٹ سیکریٹری نے اپنے پہلے موقف میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ پراجیکٹ میں فیول کرپشن کے حوالے سے تمام دستاویزات منگوا کر اس پر کارروائیکرینگے مگر انھوں نے کوئی جواب نہ دیتے ہوئے کہا کہ کہ وہ آج کل دفتر  کے معاملات سے باہرہیں نیلم جہلم کے CFO سے دو ہفتوں سے مسلسل مختلف زرائع سے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ نیلم جہلم کے CEO بریگیڈیر محمد زرین کو اس حوالے سے ایک سوال نامہ بھیجا
گیا مگر انھوں نے بھی جواب نہیں دیا جب ان کے ساتھ فون پر رابطہ کیا گیا توانھوں نے جواب دیا کہ یہ بریگیڈیر زرین صاحب کا نمبر نہیں مگر ان کے وٹسایپ کی تصویر سے معلوم ہوا کہ وہ بریگیڈیر زرین کا ہی نمبر ہے جبکہ وہ دیگر افسران اور افراد سے اسی نمبر سے راابطہ کرتے ہیں۔
مزیدخبریں