اسلام آباد میں سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے رواں سال اپنی پہلی قومی سلامتی پالیسی بنائی ہے جو انسانی اور اقتصادی سلامتی کو حاصل کرنے کا سبب بنے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں دوسری بار اس سیکیورٹی ڈائیلاگ میں خطاب کر رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہمیں مل کر تصادم کے بجائے عالمی تعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں، اس ڈائیلاگ میں دنیا بھر سے ممالک مل کر سلامتی کے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔
آرمی چیف نے کہا کہ ہم غربت، موسمیاتی تبدیلی اور دہشت گردی جیسے عالمی چیلنجز سے نمٹ رہے ہیں، ہمیں مل کر عالمی نظام کو مستحکم کرنا ہے اور ہم عالمی سلامتی کے ذریعے ہی اپنے مشترکہ مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جو اقتصادی راہداری کی طرف دیکھ رہا ہے اور اس کے درمیان حائل چیلنجز سے بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلی بار اپنی قومی سلامتی پالیسی پیش کی ہے، پاکستانیوں کی خوشحالی، سلامتی، خودمختاری اس پالیسی کا مرکز ہے، یہ معاشی، انسانی اور روایتی سیکیورٹی کی نمایاں نشاندہی کرتی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اس پالیسی کا مقصد ہماری جغرافیائی معاشی حکمت عملی کے تحت معاشی نمو کا حصول اور اپنی شہریوں کی خود مختاری اور معاشی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن کی بحالی کے لیے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں نے بے شمار قربانیاں دیں اور سال 2001 سے اب تک پاکستان 90 ہزار جانوں اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں، سیکیورٹی فورسز اور ہمارے شہریوں کی مدد سے ہم نے دہشت گردی کے خلاف تاریخی کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ تاہم خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات اب بھی موجود ہیں اور جب تک یہ ختم نہیں ہوجاتے ہم سکون سے نہیں بیٹھیں گے، اس کے لیے ہم افغانستان حکومت اور پڑوسی ممالک سے درخواست کرتے ہیں کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایک ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کی جائے۔
آرمی چیف نے کہا کہ پُرامن اور مستحکم جنوبی و مغربی ایشیا ہمارا اہم مقصد ہے، پاکستان کی پالیسی ہم آہنگی پر مبنی ہے اور ہماری توجہ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے انتہا پسندی اور تشدد کو ختم کرنے پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن جب تک ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کے مطابق پاکستان کو جدید اور مستحکم ملک نہ بنادیں، ہم اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ نہ صرف ملک بلکہ پورے خطے کی ترقی ہونی چاہیے اور اس مقصد کے لیے پڑوسیوں کے لیے ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ہمارے مغرب میں دہائیوں کے تصادم نے ہماری معیشت، معاشرے اور سلامتی پر اثرات مرتب کیے ہیں، اسی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی برداری کے ساتھ قریبی تعلقات بحال کر رہا ہے تاکہ افغانستان میں امن و استحکام کو فروغ دیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے مالی بحران اور پابندیاں افغانستان میں انسانی بحران پیدا کر رہے ہیں، پاکستان افغان شہریوں کی مدد کے لیے بین الاقوامی برادری کے تعاون سے وسیع پیمانے پر کام کر رہا ہے لیکن انہیں مزید مدد کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ افغانستان کے لوگوں کے لیے جلد انسانی امداد کو یقینی بنایا جائے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یوکرین بھی انسانی بحران سے گزر رہا ہے لیکن ایسے میں افغانستان کو بھلایا نہیں جا سکتا۔
آرمی چیف نے باور کرایا کہ اگر ہم افغانستان میں انسانی بحران پر قابو پانے میں ناکام رہے تو افغان سرزمین ایک بار پھر داعش جیسے عناصر کی دہشت گردی کا گڑھ بن سکتی ہے اور اس کے نتائج 9/11 سے زیادہ خطرناک ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ دنیا افغان حکومت کو تسلیم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں لیکن ہمیں صبر کرتے ہوئے ان کی مدد کرنی ہوگی، اس کے لیے ہمیں ان پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے انہیں مدد فراہم کرنی چاہیے تاکہ ان میں مثبت تبدیلی آسکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی برداری کے حوالے سے تحفظات ہیں، ہم مانتے ہیں کہ افغانستان سے قطع تعلق ہونا کوئی آپشن نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اپنے تحفظات دور کرنے کے لیے براہِ راست افغان حکومت سے گفتگو کرے اور انسانی امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرے۔
چیف آف آرمی اسٹاف کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے ہی 40 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہا ہے، ہمارا ماننا ہے کہ انہیں واپس بھیجنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر پُرامن ماحول قائم کرنا چاہیے اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر حالات بہتر ہیں اور ہم نے گزشتہ ایک سال سے لائن آف کنٹرول پر کوئی بڑا حادثہ نہیں دیکھا جو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف مقیم شہریوں کے لیے بہت خوش آئند ہے لیکن بھارت کی جانب سے 9 مارچ کو پاکستان میں داغا گیا سوپر سونک میزائل ہمارے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔
جنرل قمرجاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ یہ پہلی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک جوہری قوت رکھنے والی قوم نے دوسری جوہری قوت پر ایک سپر سونک میزائل پھینکا ہے اور ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ بھارت نے فوری طور پر میزائل گرنے کے حوالے سے پاکستان کو کیوں آگاہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس واقعے میں پاکستان کو اپنے شہریوں کے جانی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائے اور بھارت اس سے متعلق تمام تر شواہد فراہم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سال 2019 میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے بھارتی پائلٹ کو واپس بھیجا، پاکستان کشمیر سمیت تمام تر تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات پر یقین رکھتا ہے، امید ہے کہ بھارت بھی ایسا ہی کرے گا۔
آرمی چیف نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ خطے کی سیاسی قیادت کو غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے کے 3 ارب لوگوں کو امن اور خودمختاری فراہم کرنی چاہیے، پاکستان خود کو مثبت معاشی مفادات کا گڑھ سمجھتا ہے جس کے لیے ہم نےروابط اور دوستانہ تعلقات پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی کیمپ پولیٹکس پر اعتماد نہیں رکھتا جس کے ذریعے ہمارے اپنے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثرات مرتب ہوں، پاکستان کے چین کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں جس کی ایک مثال چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح ہمارے امریکا کے ساتھ بھی بہترین تعلقات ہیں جو اب بھی ہماری سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں اور اس سے اہم پیش رفت بھی سامنے آئی ہیں۔
روس یوکرین جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ یوکرین کے حوالے سے روس کے یوکرین پر حملے بہتر نہیں ہیں جس کے نتیجے میں یوکرین کے ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے، کئی لوگ ملک سے ہجرت کر گئے جبکہ آدھا یوکرین تباہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بڑا المیہ ہے جسے فوری طور پر روکنا چاہیے اور پاکستان، فوری طور پر یوکرین میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ ہم فوری طور پر مذکرات کی حمایت کرتے ہیں، پاکستان پاک فضائیہ کے خصوصی طیاروں کے ذریعے یوکرین میں امداد بھیج چکا ہے البتہ یوکرین کے لیے امداد بھیجنا کسی کی حمایت کے مترادف نہیں ہے۔