جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹنگ کیلئے آنے والے اپوزیشن اراکین کو پہلے پارلیمنٹ لاجز میں ہی روکنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ وہ ایوان میں پہنچ ہی نہ سکیں۔ تاہم اگر کوئی قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہو جائے تو اسے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا بھی خدشہ ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ بھی تیار ہو چکا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو ڈی چوک سے آگے جانے کی رسائی دی جائے۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ ووٹنگ کے عمل میں تاخیر کی تجویز کی سپیکر اسد قیصر نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ کا عمل موخر نہیں کرسکتے کیونکہ کل آخری دن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو بتا دیا ہے کہ کوئی شواہد موجود نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کوئی عالمی سازش ہے۔ برائے مہربانی شواہد فراہم کئے جائیں اگر حکومت کے پاس موجود ہیں۔
خیال رہے کہ اتوار 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی۔ عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہوگئی تو وزیراعظم اپنا برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔
ادھر قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کی جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان وزیراعظم عمران خان پرعدم اعتماد کرتا ہے۔ عمران خان ایوان کا اعتماد کھو چکے لہٰذا وزیراعظم کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کی صبح ساڑھے 11 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا۔