نہ تو یہ پہلی حکومت ہے، اور نہ ہی آخری کہ جس نے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ پاکستان ایسی مملکت میں اقتدار ایک بے رحم اور سفاک چیز ہے اور اسے بچانے کے لئے بے حسی، بے رحمی اور سفاکیت ہی درکار ہوتی ہے۔
جب وزیراعظم نے ایک عوامی اجتماع کے انعقاد کی اپنی بھرپور خواہش کا اعادہ کیا اور اسے عملی جامہ پہننانے کے لئے احکامات صادر کئے تو تواتر سے وہ کہتے رہے کہ 27 مارچ کے اپنے جلسے میں وہ ایک بہت بڑا سرپرائز دیں گے۔
ان کے مصاحبین اس بات پر یقین کرتے رہے کہ شاید ایسا کوئی سرپرائز ہوگا جو حکومت کو درپیش مسائل کو حل کر دے گا، جبکہ ان کے مخالفین اسے ایک لاف زنی قرار دیتے رہے مگر ہر دو صورتوں میں وزیراعظم کے سرپرائز دینے کی بات زبان زد عام رہی اب جبکہ ان کا جلسہ اختتام پذیر ہو چکا ہے اور ملک بھر سے آئے ہوئے اپنے کارکنان سے وہ سوا گھنٹہ خطاب کر چکے ہیں، تو سوشل میڈیا پر شدت سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آخر وہ کون سا سرپرائز تھا جو دیا گیا یا نہیں دیا گیا۔ اس ساری صورتحال میں یہ واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ وزیراعظم کی تقریر ایسے سرپرائزوں سے بھرپور تھی جو سِرے سے دیئے ہی نہیں گئے۔
وزیراعظم نے یہ سرپرائز نہیں دیا کہ ان کی حکومت کو ایوان میں درپیش عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کے لئے درکار 172 ووٹ حاصل ہو چکے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے یہ سرپرائز بھی نہیں دیا کہ آدھے درجن کے قریب ان کی اتحادی جماعتوں کو آخر کون سے ایسے مسائل ہیں کہ وہ ان کی حکومت کے ساتھ چلنے پر راضی نہیں ہیں؟
یہ سرپرائز بھی نہیں دیا گیا کہ 50 وفاقی وزارتوں کی کارکردگی کیا رہی کہ صرف مراد سعید کی ایک وزارت کی کارکردگی بتانے پر ہی اکتفا کیا گیا؟ جلسے کے شرکا تو اس سرپرائز کے انتظار میں تھے کہ شاید پارلیمان کی بالا دستی کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل دیا جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا بلکہ وزیراعظم مسلسل پارلیمانی نظام پر حملہ آور ہوتے رہے۔
اپنی گفتگو میں انہوں نے یہ سرپرائز بھی نہیں دیا کہ آخر ان کے ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ کی ایک بہت بڑی تعداد اس "تاریخی" جلسے میں کیوں نہیں شریک تھی۔ یہ کچھ ایسے سرپرائز تھے جو وزیراعظم نے دینا گوارا نہیں کئے مگر جو حیران کن انکشافات انہوں نے کئے وہ بھی اپنی جگہ بھرپور سرپرائز تھے۔
اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ سابقہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بات کی اور گفتگو کا ایسا انداز اپنایا کہ جیسے ان کے خلاف بھٹو طرز کی ہی کوئی "عالمی" سازش کی جا رہی ہے۔ یہ بات بھی سرپرائز تھی کہ انہوں نے اپنے جلسے کے عنوان "امر بالمعروف" کی بابت سرے سے کوئی گفتگو ہی نہیں کی۔
انہوں نے اپوزیشن کو اپنی روایتی غیر اخلاقی اور پست گفتگو سے نوازا اور اپوزیشن کے چور ڈاکو ہونے کے اپنے فرضی بیانیے کو دہرایا۔ ان کی گفتگو میں یہ "سرپرائز" کہ امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں پر خرچ کیا جائے گا، ان کی فکری خشک سالی کی دلیل تھا۔
ایک سے بڑھ کر ایک سرپرائز تھے کہ ان کی حکومت خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اور اندرونی اور بیرونی لوگ اس میں ملوث ہیں اور اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے ایک خط لہرایا اور کہا کہ اس میں سازش موجود ہے۔
اس سے پہلے کہ اس خط والے سرپرائز پر بات کی جائے۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لئے بتانا ضروری ہے کہ وزیراعظم نے اس خط لہرانے والے فعل کو ماضی ایک کے عوامی جلسے سے نقل کیا ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ 1977ء میں جب وزیراعظم بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چل رہی تھی تو وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور اس سے اگلے دن راولپنڈی میں ایک چھوٹے سے ہجوم سے غیر رسمی اور اتفاقیہ ملاقات میں، وزیراعظم بھٹو نے، امریکی وزیرِ خارجہ سائرس وینس کا ایک خط بھی لہرایا جس میں بھٹو صاحب کو ایک مرتبہ پھر دھمکی دی گئی تھی۔ خط لہراتے ہوئے انھوں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ دیکھو مجھے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کو خطرہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ان کے اس فعل کی ہو بہو نقل کر کے اپنے خلاف ہونے والی مجوزہ سازش کا بتا کر اپنی طرف سے شرکا کو ایک سرپرائز دیا۔ مزید برآں وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے "شدید ناپسند" وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا کہ ان کے سینے میں ایسے راز ہیں کہ اگر وہ زبان پر لے آئیں تو اپوزیشن منہ دِکھانے کے قابل نہ رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بطور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کئی مثبت اور منفی واقعات کے عینی شاہد اور کردار ہوں گے کہ جن کو عام عوام میں بیان کرنا ملکی مفاد میں نہ ہو گا مگر یہ حیران کن بات ہے کہ ایسے راز جن سے ان کی حکومت بچ سکتی، اور اپوزیشن مطعون ہو سکتی ہو، انہیں بیان نہ کرنا ناصرف اپنی حکومت کے ساتھ نا انصافی بلکہ پاکستان کے عوام کے جاننے کے حق کی نفی بھی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے طرزِ سیاست پر نظر رکھنے والے ہزاروں لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی خط عمران خان صاحب کے ہاتھ لگ جاتا تو تحریک انصاف اس کی لاکھوں کاپیاں چھاپ کر اپنا سیاسی فائدہ لیتی یا کم از کم جلسہ گاہ اس خط کی کاپیاں تقسیم کرکے اسے سرپرائز کہا جاتا بالکل اسی طرح اگر تحریک انصاف کا پارلیمانی مقدمہ مضبوط ہوتا تو اسے ایک قرطاس ابیض (White Paper) کی صورت میں چھاپ کر شرکا جلسہ میں تقسیم کیا جاتا۔
اب جبکہ "وہ عظیم جلسہ" اختتام پذیر ہو چکا ہے تو قوم اور میڈیا اس لایعنی و لامعنی بحث میں الجھ رہی ہے کہ اُس فرضی خط میں کیا لکھا گیا اور کس نے لکھا وغیرہ وغیرہ۔ مگر عمران کی شخصی حکومت کے لئے کچھ ناپسندیدہ سرپرائز اپنی جگہ پر موجود ہیں جو وقت آنے پر انہیں اقتدار سے رخصت کر دیں گے اور حیرت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم ان سرپرائز کے بارے میں واقعی گھبراہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔.