ایوان بالا میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہوچکی ہے لیکن سیاسی گرما گرمی اپنے عروج پر ہے، جہاں ایوان بالا کا اعتماد حاصل کرنے پر حکومتی ارکان اور چیئرمین سینیٹ خوشی سے سرشار ہیں تو وہیں متحدہ اپوزیشن ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد روایتی ردعمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
ایسے ہی رویے کا مظاہرہ چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے نامزد متحدہ اپوزیشن کے امیدوار میر حاصل خان بزنجو نے بھی کیا، تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میر حاصل خان بزنجو نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈی جی کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ووٹ دینے والے لوگ آئی ایس آئی کے لوگ تھے۔
حاصل بزنجو کے اس بیان پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے رد عمل میں کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن کے امیدوار میرحاصل بزنجو کی طرف سے اس عمل میں ایک اہم قومی ادارے کے سربراہ کو ملوث قراردینا بے بنیاد ہے۔ حقیر سیاسی مقاصد کیلئے پورے جمہوری عمل کو بدنام کرنا جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں۔
دوسری طرف گوجرانوالہ کی سیشن عدالت میں وکیل غلام قادر بھنڈر نے قومی اداروں کے خلاف بیان بازی پر حاصل بزنجو کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کی ہے، جس میں سی پی او گوجرانوالہ اور ایس ایچ او سول کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ حاصل بزنجو نے سینیٹ الیکشن ہارنے پر فوجی ادارے کے سربراہ کے خلاف الفاظ بولے، اس پر سی پی او گوجرانوالہ حاصل بزنجو کے خلاف مقدمہ درج کریں۔
سیشن جج گوجرانوالہ راؤ جبار نے افواج پاکستان کے خلاف مبینہ ہرزہ سرائی پر میر حاصل بزنجو کے نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
سوشل میڈیا پر بھی میر حاصل خان بزنجو کے اس بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، پاکستانی ٹویٹر صارفین میر حاصل خان بزنجو کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تھی۔ اپوزیشن کے 64 ارکان میں سے صرف 50 ارکان نے تحریک کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے متعلق سوال کے جواب میں سینیٹر حاصل بزنجو نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔