غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ جو موجودہ صورتحال ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ امریکا نے جلد بازی میں افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا۔ اشرف غنی نے واشنگٹن کو خبردار کیا کہ مکمل انخلا کے ’سنگین نتائج‘ ہوں گے۔
دوسری جانب افغان آرمی نے بتایا کہ جنوبی اور مغربی حصے کے تین صوبوں میں سیکیورٹی کی صورتحال ’انتہائی نازک‘ ہے جہاں طالبان اور افغان فورسز کے مابین جھڑپیں تیز ہوچکی ہیں۔ امریکا کی جانب سے 31 اگست تک مکمل انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان میں طالبان کا کنٹرول وسیع ہوتا جارہا ہے۔
طالبان نے حالیہ حملے میں متعدد اضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا جبکہ اس وقت جنگجوؤں کی پیش قدمی صوبائی دارالحکومتوں کی جانب ہے۔
علاوہ ازیں افغان صدر نے پارلیمنٹ میں اپنا سیکیورٹی منصوبہ پیش کیا ہے لیکن اس منصوبے سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق اشرف غنی نے ’6 ماہ پر مشتمل سیکیورٹی پلان پر بات کی اور کہا کہ اس دوران حالات بہت بہتر ہوجائیں گے‘۔ تاہم انہوں نے منصوبے سے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔
اس حوالے سے عالمی برادری کے اراکین اور سفارتکاوں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کو تفصیل کے ساتھ اپنا سیکیورٹی منصوبہ پیش کرنا چاہیے۔ بعدازاں اشرف غنی کے سیکیورٹی پلان سے متعلق طالبان نے بیان جاری کیا، جس میں افغان صدر کے بیانات کو ’بکواس‘ قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی خراب دماغی حالت اور غلطیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ طالبان نے کہا کہ قوم نے قومی غداروں کے خلاف مقدمہ چلانے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے، جنگ کے اعلانات، الزامات لگانا اور غلط معلومات فراہم کرنا اشرف غنی کی زندگی کو طول نہیں دے سکتا، اس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔