مثال کے طور پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ اب کے طالبان مہذب لوگ ہیں اور وہ اب مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ طالبان سادہ لباس میں ذہین لوگ ہیں جبکہ سکیورٹی ایڈوائزر ( پاکستان ) طالبان کو سلجھے ہوئے لوگ کہتے ہیں۔
دنیا بھر میں تقریباً تمام معاشرے جنگ کےحوالے سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے ۔ پاکستان کی افغان جنگ میں جانے سے آج تک یہی پالیسی نظرآئی ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھرکے پلیٹ فارمز پر ہم اگر دہشت گردی اور دہشت گردوں کےخلاف بات کرتے ہیں تو ہمارے ہاں ملک میں ہم اس بات کو تقسیم کر کے نئے تعلقات کو اس حوالے سے استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ "گڈ طالبان اور بیڈ طالبان"۔ جس کی تازہ مثال تو آج بھی پاکستان میں موجود ہے کہ ایک طرف ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نہ نکلنے پر تو دنیا سے گلہ کرتے ہیں اور اس کی جانبداری پر سوال اٹھاتے ہیں حالانکہ وہ سوالات شاید کافی حد تک جذباتی ڈاکٹرائن جو ستر سالوں سے اس ملک میں پاک بھارت دشمنی کے عوض نسلوں میں انجیکٹ کی جا رہی ہے کہ لئے سود مند بھی ہوں مگر اس بات کا جواب دہ کون ہے کہ ریاستی پالیسی کے تحت اگر افغان اور پاکستانی طالبان میں فرق نہیں تو افغان طالبان کا نمائندہ پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے نیوز چینلز کے مین سلاٹ پروگرامز میں بطور ون ٹو ون مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ جبکہ پاکستانی طالبان تو دور کی بات ہے پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور مخالف سوچ اور بیانیہ رکھنے والے صحافیوں پر ریاست کی جانب سے مکمل پابندی ہے جس میں منظور پشتین، علی وزیر، محسن داوڑ، نواز شریف، طلعت حسین اور مطیع اللہ جان شامل ہیں۔
افغان طالبان سے پاکستانی طالبان تک!
حال ہی میں پہلی دفعہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی نے عالمی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہماری لڑائی واضح طور پر پاکستان اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں سے ہے اور ہم قبائلی علاقہ جات کو آزاد کروا کر اس کا کنٹرول چاہتے ہیں۔ جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی نے پاکستان کی اس ریاستی پالیسی کی بھی دھجیاں اڑائیں کہ پاکستانی طالبان اور افغانی طالبان علیحدہ سوچ کے مالک ہیں۔ نور ولی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کی جیت سے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور افغان طالبان کی فتح پوری امت مسلمہ کی فتح ہے، اس فتح سے ہمیں بھی مدد ملتی ہے۔ اسی طور جب نور ولی سے پوچھا گیا کہ افغان طالبان کی فتح سے آپ کو فائدہ ہو گا کہ نہیں تواس نے کہا کہ یہ وقت بتائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق کیا ہے ؟ دونوں کا دعوٰی ہے کہ وہ اسلام کے سپاہی ہیں ، دونوں کا کام اپنی فورسز کے خلاف چلنا اور مخالفت اسلحہ بردار ہو کر کرنا خون بہانہ ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کہے کہ افغان طالبان کا اقتدار اور حیثیت قبول ہے جبکہ پاکستانی طالبان کا وجود ریاست کے لئے خطرہ ہے۔اس ریاستی پالیسی کے بعد آپ کس طرح یہ سوچ سکتے ہیں کہ افغان ترقی پسند عوام اور وہاں کی سول حکومت اشرف غنی آپ کی حمایت کرے یا آپ کے خلاف زہر نہ اگلے۔ افغانستان کے حالات کا براہ راست اثر ہمارے قبائلی علاقوں پر نا صرف پڑے گا بلکہ پڑنا شروع ہو چکا ہے جہاں باقاعدہ طور پر عوام میں اس بات کی ترویج کی جا رہی ہے کہ کئی عشروں کی لڑائی کے باوجود جب دنیا کی سپر پاور اسلام اور طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک گئی ہے تو پاکستانی حکومت سے مسلح جنگ کر کے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔اسی طور پر کوئٹہ پشاور میں طالبان کے جھنڈے اٹھائے درجنوں افراد نا صرف ان کے جنازوں میں شریک ہو رہے ہیں بلکہ ان کے حق میں نعرے بازی کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ افغان معاملات میں پاکستان پر نا صرف گہرے بلکہ خطرناک خدشات منڈلا رہے ہیں۔
کیا منافقت ہماری جیت ہے؟
پاکستان میں ریاستی پالیسی کو جہاں ایک طرف کنفیوژن کا شکار بتایا جاتا ہے یا سمجھا جاتا ہے وہیں اس بات سے بھی منہ نہیں پھیرا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے ہر پالیسی میں ہر فریق کے لئے لچک رکھ کر جہاں بہت نقصان اٹھایا ہے وہیں جغرافیائی صورتحال کے نظر اس سے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر واضح ہے کہ پاکستان کبھی افغان طالبان کے جہاد کے مخالف نہیں رہا بلکہ القائدہ متعلق جب مشرف دور میں امریکہ نے اسامہ بن لادن کی حوالگی نہ کرنے پر پاکستان کی مدد مانگی تو پاکستان نے ائیر بیس دے کر اور دیگر طریقوں سے امریکہ کی حصہ داری میں شمولیت اختیار کی وہیں افغان طالبان سے مذاکرات اور پاکستان کی سلامتی کے عوض بات چیت بھی برقرار رہی۔ اس کا واضح فائدہ افغان طالبان کا براہ راست پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام نہ کرنا یا نقصان نہ پہنچانا رہا۔ دوسری جانب امریکہ کے بطور سپر پاورہونے پر اس کا ساتھ دینا اور عالمی دنیا میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنا تاکہ امریکہ براہ راست ہم پر الزام تراشی کر کے مخالفت میں معاشی اور دیگر پابندیاں لگا کر ہمیں دنیائے سیاست میں تنہا نہ کرے۔ یہ فائدہ بھی بہر حال آج تک قائم ہےجس میں ہمارا موقف دنیا تسلیم کرتی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے کئی ہزار جانوں کا نذرانہ دیا اور خود اس کا شکار بنا۔
منافقت تو سبھی کرتے ہیں !
ہر ملک کے دوسرے ملک پر اعتبار کی وجہ سوائے اس کے کہ اس کا مفاد اس ملک سے جڑا ہے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ دوستی کی حامی ایک ریاست دوسری ریاست سے تبھی بڑھتی ہے جب اس کا مفاد اس کو عالمی سطح پر نظر آئے مثال کے طور پر امریکہ جیسا منافق پالیسی رکھنے والا ملک جس نے شروع سے اب تک اس خطے میں تمام ممالک سے منافقانہ پالیسی پر اپنا مفاد لیا اس نے بڑے مواقع پر تمام ممالک کے ساتھ دھوکہ کیا جس میں بھارت اور پاکستان دونوں شامل ہیں۔ 1971 کی جنگ میں پاکستان کو انتظار رہا لیکن ہماری امداد کے لئے امریکہ نا پہنچا۔ ہندوستان اور چین کے مابین تلخی میں بھارت انتظار میں رہا اور امریکہ نے مناسب نہ سمجھا کہ کھل کر چین سے اس حوالے سے مخالفت مول لے۔ بھارت نے نوے کی دہائی میں طالبان کے حوالے سے اپنے معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ ولی مسعود کو اپنے ہیلی کاپٹرز میں دہلی میں بلا کر اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ پاکستان کے ساتھ چونکہ افغانستان کا مذہبی عقیدت اور ہم آہنگی کا رشتہ قدرتی ہے لہذا وہ چاہ کر بھی ہم سے اور ہم اس سے کھل کا جنگ اور مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ لہذا ہم ریاست کو اپنی ریاست کے عوض بہت سی جگہ (حکمت عملی کہیے یا) منافقانہ پالیسی یہ اپنانا پڑتی ہے جو کہ پاکستان نے بھی اپنا کر اپنی ریاست کے لئے کئی فائدے حاصل کئے ہیں اور شاید اس کو مزید بھی کرنے چاہئیں۔