الیکشن کمیشن کی جانب سے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 20 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ آج چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ سنا رہا ہے۔
فیصلے میں چیف الیکشن کمیشنر کی جانب سےکہا گیا کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف نے عارف نقوی سمیت 34 غیر ملکیوں سے فنڈز لیے۔
الیکشن کمیشن کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈ لیے ہیں، 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے لیکن پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کے بارے میں بتانے میں ناکام رہی، آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے، پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں سے فنڈ لیے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو ابراج گروپ سمیت غیر ملکی کمپنیوں سے فنڈنگ موصول ہوئی۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن میں مس ڈیکلیریشن جمع کرایا۔ پی ٹی آئی چیئرمین کا سرٹیفکیٹ غلط تھا۔ عمران خان کے بیان حلفی میں غلط بیانی کی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے جمع کروایا گیا بیان حلفی جھوٹا ہے۔
فیصلے کے اہم نکات
- ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈ لیے ہیں
- 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے
- امریکا، آسٹریلیا اور یو اے ای سے عطیات لیے گئے
- پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کے بارے میں بتانے میں ناکام رہی
- آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے
- پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں، 351 کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے فنڈز لیے
- سیا سی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 سے متعلق ممنوعہ فنڈنگ ہے
- عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی ہے
- پارٹی اکاؤنٹس سےمتعلق دیا گیا بیان حلفی جھوٹا ہے
فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے تفصیلی فیصلے کے مطابق تحریکِ انصاف نے جن تیرہ نامعلوم اکاؤنٹس کی ملکیت کو تسلیم نہیں کیا اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں، بینک آف پنجاب کوئٹہ برانچ میں قاسم خان سوری نے اکاؤنٹ کھولا، اس اکاؤنٹ سے 5.350 ملین روپے نکالے گئے، قاسم سوری نے جو اکاؤنٹ کھولا 556 ملین روپے جمع کروائے گئے، میاں محمودالرشید کے ذریعے کھلوائے گئے اکاؤنٹس میں 20.372 ملین روپے جمع کروائے گئے، 16.182 ملین روپے مذکورہ اکاؤنٹس سے نکلوائے گئے، اسد قیصر کے نام پر کھلوائے گئے اکاؤنٹ میں2.127 ملین جمع کروائے گئے،اسد قیصر کے اکاؤنٹ سے 2.111 ملین نکلوائے گئے۔
فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ پانچ سال میں اکاؤنٹس سے متعلق الیکشن کمیشن میں جمع کرائی معلومات غلط تھیں، پاکستانی بینکوں میں تحریکِ انصاف کے ملازمین کے نام پر 11.104 ملین روپے منتقل کیے گئے، پی ٹی آئی ملازمین کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرائے گئے 11.104 ملین روپے انکی ظاہر آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، یہ شواہد عکاسی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے نام پر ملازمین کے اکاؤنٹس میں پیسے بھجوائے جاتے رہے۔
الیکشن کمیشن نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ابراج گروپ امریکی حکام کے سامنے فراڈ کرکے پلی بارگین کر چکا ہے، ابراج گروپ نامی جس کمپنی سے پی ٹی آئی نے ڈونیشن لیے وہ فوجداری فراڈ میں ملوث ہے، 2018-21 تک پی ٹی آئی کے پاس موقع تھا کہ وہ فنڈز کے متعلق مکمل حقائق ظاہر کرتی، تحریکِ انصاف تمام حقائق اور فنڈز کا ذریعہ چھپانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی، عارف نقوی نے بیان حلفی کے ذریعے تسلیم کیاکہ وہ رضاکارانہ طور پر تحریکِ انصاف کی فنڈ ریزنگ مہم میں شامل رہا، عارف نقوی نے جو پوزیشن لی وہ یو اے ای کے قوانین کے برخلاف ہے، یو اے ای میں فنڈ ریزنگ کے لیے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تحریکِ انصاف نے ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 ڈالرز کی ممنوعہ فنڈنگ وصول کی، تحریکِ انصاف نے یو اے ای میں قائم کمپنی برسٹل انجینئرنگ سے 49 ہزار 965 ڈالرز کی ممنوعہ فنڈنگ وصول کی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مالیاتی سال دو ہزار آٹھ، نو سے سال دو ہزار بارہ تیرہ تک فراہم کردہ فورم میں درست حقائق نہیں دیے، 2008 سے لیکر 2013 تک فراہم کردہ اکاؤنٹس کی تفصیلات اسٹیٹ بنک کی تفصیلات کے بر خلاف ہے۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں مزید کہا کہ تحریکِ انصاف نے الیکشن کمیشن میں 8 اکاؤنٹس کی ملکیت تسلیم کی اور 13 نامعلوم اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، سٹیٹ بینک سے موصول ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی نے جن 13 اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا درحقیقت وہ اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت کے ذریعے کھولے گئے، پی ٹی آئی نے مزید 3 بینک اکاؤنٹس کو بھی چھپایا جو مرکزی قیادت کے ذریعے کھلوائے گئے، مجموعی طور پر تحریکِ انصاف نے 16 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات چھپائیں، 16 بینک اکاؤنٹس کا چھپایا جانا پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی سنگین غفلت ہے، تحریکِ انصاف نے آئین کے آرٹیکل 17 کی ذیلی شق تین کی خلاف ورزی کی جبکہ پی ٹی آئی نے بھارت سے ممنوعہ فنڈنگ وصول کی،
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق تحریکِ انصاف نے بھارتی نژاد امریکی بزنس میں رومیتا شیٹی سے 13750 ڈالرز وصول کیے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف وضاحت دے انکے ممنوعہ فنڈنگ کیوں نہ ضبط کر لیے جائیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کے خلاف 2 صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کروانے کے بعد ان کے استعفے کے مطالبے کے لیے 4 اگست کا اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سنایا جا رہا ہے جب 20 جون کو الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم میں تیزی آئی اور حال ہی میں فنانشل ٹائمز میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح برطانیہ میں ایک چیریٹی کرکٹ میچ کے ذریعے جمع ہونے والے 20 لاکھ ڈالر پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں آئے اور اس عمل میں بزنس ٹائیکون عارف نقوی کا کیا کردار رہا۔
دریں اثنا پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے آج اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں کے فیصلے ہیں کہ تینوں جماعتوں کے کیسز کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے لیکن الیکشن کمیشن مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے فنڈنگ معاملات کو دیکھنے کی زحمت نہیں کر رہا'۔
انہوں نے کہا کہ 'آج کوئی آسمان نہیں ٹوٹنا، سیاسی فیصلے الیکشن کمشنر نہیں عوام نے کرنے ہیں، اصل فیصلہ عوام کا ہوگا'۔
https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1554325936484794369
ممنوعہ فنڈنگ کیس کا پس منظر
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے دائر کیا گیا یہ کیس 14 نومبر 2014 سے زیر التوا تھا ، اکبر ایس بابر نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا، تاہم عمران خان اور پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اس حوالے سے کسی بھی غیر قانونی کام کی تردید کی جاتی رہی ہے جن کا یہ مؤقف ہے کہ مذکورہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے نہیں ہوئی۔
مارچ 2018 میں ایک ماہ کے اندر پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے بالآخر 4 سال بعد 4 جنوری کو اپنی رپورٹ جمع کروائی، اس مدت کے دوران اس حوالے سے تقریباً 95 سماعتیں ہوئیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے طلب کیے گئے ریکارڈ کی 8 جلدوں پر مبنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی قیادت نے بھارتی شہریوں اور بیرون ملکی کمپنیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں سے ذرائع آمدن اور دیگر تفصیلات کے بغیر لاکھوں ڈالرز اور اربوں روپے جمع کرکے فنڈنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کی اور فنڈز کے اصل حجم اور درجنوں بینک اکاؤنٹس کو چھپایا۔