شمالی پاکستان میں 2010 کا سیلاب اور اس کے دردناک مناظر، تورولی-کوہستانی لغت نگار، انعام توروالی کی یادداشت میں اب بھی تازہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے بدترین انسانی تباہی میں سے ایک، اس سیلاب کی وجہ سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ تورولی سمیت کتنے ہی لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے۔ ان کے کھیت پانی میں ڈوب گۓ جس کی وجہ سے وہ اور ان کے خاندان کو پشتون اکثریتی مینگورہ شہر کی طرف ہجرت کرنی پڑی جو ضلع سوات میں ان کے آبائی شہر سے 59 کلومیٹر دور ہے۔
تباہی کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ جن میں واضح طور پر ان کی آبائی زبان توروالی کو لاحق خطرہ ہے۔ انہوں نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، "شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے نوجوان، اب غالب زبانوں؛ جیسے، پنجابی، پشتو اور اردو کے بہت سے مستعار الفاظ کے ساتھ یا تو ایک مختلف تورولی بولی بول رہے ہیں، یا بالکل بھی نہیں بول سکتے۔ ان کے بھتیجے اب پشتو بولتے ہیں، جو صوبے کی زبان ہے"۔
توروالی کہتے ہیں، "موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحران کی شدّت سے متعلق پہاڑی کمیونٹیز کے پاس کوئی علم نہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی حکمت عملی سے یہ لاعلم ہیں"۔ مزید براں، گلگت بلتستان کی آب و ہوا کی حکمت عملی ہجرت، اور نقل مکانی کرنے والوں کی ترسیلات کو ایک مثبت موافقت کی حکمت عملی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ خیبر پختونخواہ کی موسمی حکمت عملی موسمی تبدیلی کے تحت نقل مکانی کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کی موافقت کی حکمت عملی آنے والے مہاجرین کے لئے بہتر شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے محدود ہے۔ نہ ہی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی، شمالی پاکستان کی ثقافتوں اور زبانوں کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔
پہاڑی خطّوں میں چھوٹی آبادیاں غیر محفوظ ہیں
پاکستان کے پہاڑی شمالی علاقوں میں 30 سے زیادہ 'خطرے سے دوچار' زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے بہت سی زبانیں صرف چھوٹی آبادی میں بولی جاتی ہیں، جو کہ چند ہزار پر مشتمل ہیں۔ اس خطّے میں آباد کمیونٹیز متعدد موسمی آفات کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ 500 سے زائد گلیشیئرز رکھنے والے ضلع چترال کو، "17 سالوں میں 2021 تک، 13 سے زیادہ برفانی سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی گھرانے بے گھر ہوئے اور وہ سالوں تک عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور رہے"۔ گلگت بلتستان میں 2010 کے سیلاب کے علاوہ 1999 سے 2017 تک 15 گلوف (جی ایل او ایف) واقعات ریکارڈ کئے گئے۔
چھوٹی آبادی کی بولی جانے والی زبانوں پر ان آفات کا بلواسطہ گہرا اثر ہے۔ مثال کے طور پر، جب 2018 میں گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا گاؤں بدسوات ایک گلوف (جی ایل او ایف) کا نشانہ بنا، تو واکھی زبان بولنے والے خاندانوں کو مجبوراً گلگت شہر منتقل ہونا پڑا۔ واکھی صرف 40,000 لوگ بولتے ہیں اور یہ گلگت شہر کی زبان نہیں ہے، یہاں نئے مہاجرین کو شینا یا پاکستان کی سرکاری زبان اردو میں بات چیت کرنا سیکھنا پڑا۔
لیکن شینا خود بھی ایسے ہی عوامل کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے زبانوں کے محقق محمد وزیر بیگ نے بتایا کہ ان کے بہت سے رشتہ دار جو 1978 اور 2010 کے سیلاب میں اپنا گھر کھو بیٹھے تھے وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، "جب میں گزشتہ اکتوبر ان سے ملا تو میں نے ان سب کو شینا کے بجائے اردو بولتے ہوئے پایا"۔
لوگوں کے ساتھ ثقافتیں بھی بے گھر ہو رہی ہیں
اسلام آباد میں قائم فورم فار لینگوئج انیشی ایٹو (ایف ایل آئی) کے ڈائریکٹر فخرالدین اخونزادہ نے کہا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی پہاڑی آبادیوں کو نئی زبانیں سیکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ انہیں اس جغرافیہ سے بھی دور کرتا ہے جس نے ان زبانوں کو تشکیل دیا تھا۔ .
اخونزادہ نے کہا، "یہ زبانیں مویشیوں، کھیتی باڑی، دریاؤں، برف، اور جنگلات والے اونچے پہاڑوں سے مالا مال مخصوص ماحول میں تیار ہوئیں – یہ سب اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں"۔ انہوں نے بتایا کہ یہ زبانیں دوسرے خطوں میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، اور بے گھر ہونے والی آبادی اب اپنے ثقافتی تہوار نہیں مناتی، روایتی کہانیاں نہیں سناتی یا اپنی مادری زبان میں بات چیت نہیں کرتی۔ اس سے ان کی مادری زبانوں میں مہارت بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔
سمیع اللہ ارمان، جو ایڈورڈ کالج، پشاور میں پڑھاتے ہیں، اسے زبان کی 'مارکیٹ ویلیو' میں گراوٹ بتاتے ہیں، کیونکہ یہ لوگوں کو اپنے اردگرد کا ماحول سمجھنے میں مدد نہیں دیتی۔ "کسی زبان کی مارکیٹ ویلیو جتنی زیادہ ہوگی، اتنے ہی زیادہ لوگ اسے بولیں گے، اور یہ پھلے پھولے گی"، ارمان نے کہا، جو مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک تحقیقی اور ترقیاتی تنظیم، مفکورہ میں شعبہ زبان، ادب اور ثقافت کے سربراہ بھی ہیں۔
ارمان سے اتفاق کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کے سربراہ امجد سلیم نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ قدرتی آفات کی وجہ سے نقل مکانی صرف افراد کی نہیں بلکہ ثقافتوں کی نقل مکانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، "جب یہ بے گھر خاندان نقل مکانی کرتے ہیں، وہ غالب زبان بولنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ اسکولوں اور بازاروں میں ان کی مادری زبان بہت کم بولی جاتی ہے۔ وہ اپنی بیگانگی کے احساس پر قابو پانے کے لئے تیزی سے غالب زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح ایک زبان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے"۔
زبانیں جو صرف گھروں میں بولی جاتی ہیں
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کی ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر روبینہ سیٹھی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کسی زبان کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اس تحفظ کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ بچوں کو ان کے گھروں سے باہر کیا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ "اگرچہ زبان ان کے گھروں کے اندر ان کے دلوں کے قریب اور پیاری ہو سکتی ہے، لیکن باہر اس کی افادیت کا فقدان انہیں اس خطے کی غالب زبان کو اپنانے پر مجبور کرتا ہے" جہاں وہ اب آباد ہوئے ہیں۔
اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے، عصمت اللہ دمیلی، ایک محقق جنہوں نے 2000 میں دمیلی زبان کے حروف تہجی مرتب کیے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، "ہم اپنی مادری زبان صرف اپنے گھروں کے اندر بولنے کو ترجیح دیتے ہیں… اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک وقت آئیگا جب آنے والی نسلیں اسے بولنے کے قابل نہیں رہیں گی"۔ دمیلی زبان صرف 5,000 لوگ بولتے ہیں، اور چترال ضلع میں واقع دمیل ویلفیئر سوسائٹی کے مطابق جو زبان کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے – اس آبادی کا تقریباً 40 فیصد 2010 کے سیلاب کے بعد مختلف شہروں میں منتقل ہو گیا۔
ٹھوس ڈیٹا کی کمی کسی اقدام کے راستے میں رکاوٹ ہے
نقل مکانی متعدد عوامل سے ہوتی ہے، اور موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کے درمیان ایک خطی اور اسبابی تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔
بہرحال، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں ماحولیاتی سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر اویس احمد نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں سے خاص طور پر 2010 کے بعد نقل مکانی کا بنیادی محرک ہے۔ انہوں نے کہا،”لوگ ایک اور بڑی آفت سے بچنے کے لیے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لئے سب کچھ کریں گے، اس لئے وہ اکیلے یا اپنے خاندان کے ساتھ پہاڑوں سے نیچے آجاتے ہیں”۔
انعام تورولی نے اپنے تحقیقی مطالعے بعنوان “فیوچر آف توروالی مائیگرانٹس ان اربن سٹیز ” میں بتایا ہے کہ 90 فیصد مہاجر خاندان مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے آبائی شہروں کو واپس نہیں آئے۔ ایک قدیم ایرانی زبان یدغہ جو صرف 6,000 لوگ بولتے ہیں، کے تحفظ کے لئے وقف محقق محمد ولی، نے مزید کہا، “موسمیاتی تبدیلیوں نے پہلے سے غربت کے شکار پہاڑی علاقوں کو مزید غریب کردیا ہے اور نقل مکانی کو بڑھا دیا ہے۔ جن کے پاس ہجرت کے ذرائع ہیں وہ پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں، پیچھے صرف وہ لوگ رہ گۓ ہیں جو ضروری وسائل سے محروم ہیں۔”
جس طرح ریاست کو موسمیاتی تبدیلی اور نقل مکانی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، ارمان نے کہا کہ اسے ثقافتوں کے مزید زوال کو روکنے کے لئے حکمت عملی کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں زبان کے نقصان کے مسئلے کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سلیم نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا، "یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نصاب میں تمام زبانوں کو شامل کرنے کے لئے اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بچوں کو پڑھائی جائیں اگر اس کا ارادہ چھوٹی زبانوں کو محفوظ کرنے کا ہے"۔