مختلف ہال کمروں میں کیا گفتگو ہو رہی تھی، معلوم نہیں۔ جو لوگ جنھیں سننا چاہتے تھے، انھیں سننے آئے تھے۔ خود میرا اور دوستوں کا تاثر یہ تھا کہ کسی کے پاس کوئی نئی بات نہیں۔ باربار وہی کچھ دہرایا جا رہا ہے، جو پہلے بھی باربار کہا جا چکا ہے۔ پھر یہ کہ بولنے والے لوگ بھی وہی ہیں، گنے چنے نام، جو ہر ’’میلے‘‘ اور ہر ’’مباحثے‘‘ میں بلائے جاتے ہیں۔
باہر ایک لان میں کتابوں کے سٹال تھے۔ وہی کتابیں، وہی مصنف، جنھیں باربار چھاپا جا رہا ہے۔ جیسے کہ ان مصنفوں نے ’’حرفِ آخر‘‘ کہہ دیا ہے۔
دوسرے لان میں کھانے پینے کے سٹال تھے۔ وہاں خاصی بھیڑ تھی۔ چھوٹے لان میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک گروہ گا بجا رہا تھا۔
’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔‘‘
یہ وہی گروہ تھا، جس کی ویڈیو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور انھیں خوب داد ملی۔ اور جن کے خلاف پروپیگنڈا ویڈیو بھی جاری ہوئیں۔ اور غالباً یہی گروہ تھا، جو بعدازاں یہ نعرے بھی لگا رہا تھا: ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔‘‘ اور ’’انقلاب، آئے گا، انقلاب، آئے گا۔‘‘
وہیں ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ کے پرچے بھی تقسیم کیے جا رہے تھے۔ 29 نومبر کو یہ مارچ بھی منعقد ہو گیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ پر بائیں بازو کی چھاپ نمایاں تھی۔ ’’نمایاں‘‘ کہہ کر، میں اس بات کی گنجائش رکھنا چاہ رہا ہوں کہ اس مارچ میں دوسرے کچھ مختلف نظریات کے حامل طلبہ وغیرہ بھی شامل ہوں گے۔
نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کو اور بائیں بازو کو مبارک ہو کہ اس نے طاقت کا ایک بڑا مظاہرہ کیا۔ یہ خوشی منانے کا بڑا موقع ہے۔ خوشی منائیں۔ لیکن یہ ذرا رکنے، ٹھہرنے اور سوچنے کا موقع بھی ہے۔ رکیں، ٹھہریں اور سوچیں۔
سوچیں کہ کیا اس مارچ کے ذریعے جو مطالبات پیش کیے گئے، وہ صرف طلبہ یونین پر پابندی ہٹانے سے حل ہو جائیں گے۔ یہ مطالبات، اپنی نوعیت میں سیاسی ہیں اور اپنے حل کے لیے کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم کے منتظر رہیں گے۔
بائیں بازو کو ’’تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو‘‘ کے نعرے کے سحر سے باہر نکلنا چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ کس چیز کے لیے جدوجہد۔ کس کے لیے جدوجہد۔ اور کیسے جدوجہد۔
چونکہ میرا تعلق خود بائیں بازو سے رہا ہے اور میں نے بابا رفعت حسین کے نام سے پہچان رکھنے والے ’’پیپلز لیبر فرنٹ‘‘ کے ساتھ بائیں بازو کی عملی سیاست میں حصہ بھی لیا، اور گو کہ اب میں بائیں بازو کی ’’آئیڈیالوجی‘‘ سے قطعاً وابستہ نہیں، بلکہ کسی بھی آئیڈیالوجی سے وابستہ نہیں، لیکن اس تحریک کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلقِ خاطر اب بھی موجود ہے۔
مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بائیں بازو میں جتنے بھی قائدین مختلف گروہوں کی سربراہی کر رہے ہیں، ان میں اس بات کا ذرا بھی ادراک نہیں کہ وہ جس معاشرے اور جس ریاست اور سیاست کے بیچ موجود ہیں، اس پر بھی کچھ توجہ دے لیں۔
بلکہ یہ ایک پرانا ’’شکوہ‘‘ ہے کہ بائیں بازو نے اس معاشرے کو درخورِاعتنا سمجھا ہی نہیں۔ بس ایک ’’نظریہ‘‘ اٹھایا اور پاکستان پر اس کا اطلاق کر دیا۔ یہاں کے لوگوں کی تہذیب و ثقافت کیا ہے، ان کے مذہبی اعتقادات کس نوعیت کے ہیں، خود یہ معاشرہ ترقی و تمدن کے کس مرحلے پر ہے، یہاں طبقات کی تشکیل کس انداز کی ہے، وغیرہ۔ ان کے بارے میں کسی نے سوچنا گوارا ہی نہیں کیا۔ بارہا یہ کہا گیا کہ بایاں بازو ’’رومانویت‘‘ سے مغلوب رہا ہے۔ اس ’’رومانویت‘‘ کا اظہار ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ سے بھی عیاں ہے۔ بلکہ اسے ’’انقلابی رومانویت‘‘ کا نام دیا گیا۔ سمجھا یہ گیا کہ چونکہ بےمایہ لوگوں کی بات کی جا رہی ہے۔ لہٰذا، بےمایہ لوگ بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ کچے دھاگے سے بندھے چلے آئیں گے۔
یہ ایک فسطائی رجحان ہے، جس کا اعلانیہ اظہار عمران خان کی جماعت نے کیا۔ جب دو انتخابات میں انھیں اکثریت نہیں ملی (گو کہ اکثریت تو جولائی 2018 کے انتخابات میں بھی نہیں ملی۔) تو لوگوں کو ’’بیوقوف اور جاہل‘‘ کہا گیا۔ بائیں بازو نے بھی لوگوں کے بارے میں ایسی باتیں کی ہیں۔
یہاں بائیں بازو کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ کیسے جیتا جائے۔ بجائے یہ رویہ اپنانے کے کہ آپ لوگوں پر کوئی احسان کرنے جا رہے ہیں۔ احسان کرنے اور احسان جتانے کی سیاست کریں گے، تو آپ پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔ اشد ضروری ہے کہ بایاں بازو، رومانویت اور انقلابی رومانویت سے جان چھڑائے اور حقیقت پسند بنے۔
یہ سوال خود مجھے حیران کرتا ہے کہ اس وقت بایاں بازو کسی فلسفے یا سیاسی فلسفے کا حامل بھی ہے یا نہیں۔
گذشتہ برس جب لاہور میں ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کا جلسہ ہوا، تو یہ بڑی جرآت اور خوشی کی بات تھی کہ بائیں بازو کی مختلف جماعتوں کے ایک اتحاد نے ان کے ساتھ اشتراک کیا۔ مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آیا بائیں بازو کی یہ جماعتیں اپنی اشتراکی آئیڈیالوجی کو ترک کر چکی ہیں۔ یا یہ کہ اشتراکیت (سوشل ازم) میں ’’حقوق‘‘ کی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے۔ وگرنہ بائیں بازو کا کسی ایسی تنظیم کا ساتھ دینا ناقابلِ فہم ہے، جس کا واحد مقصد، آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کا حصول ہے۔
اس ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ میں جو نعرے اور کتبے لہرائے گئے، وہ بھی دیکھ لیجیے:
’’سرخ ہو گا، سرخ ہو گا، ایشیا سرخ ہو گا۔ لینن کے افکار سے، ایشیا سرخ ہو گا۔ ماؤ کے اعمال سے، ایشیا سرخ ہو گا۔‘‘ (یہ نعرے کراچی کے مارچ سے تعلق رکھتے ہیں۔)
یہ ایک اور طرح کا اعتقاد ہے۔ بھئی، کیا کہنا چاہ رہے ہیں، کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ رکیں اور سوچیں۔ پھر آگے بڑھیں۔
بائیں بازو کی بڑی جماعت، ’’عوامی ورکرز پارٹی‘‘ کو لے لیجیے۔ وہی پرانی چال ڈھال۔ وہی پرانی سوچ۔ وہی سرمایہ داری، جاگیرداری اور امریکی سامراج کے خلاف نعرے بازی۔ وہی طبقاتی جدوجہد کا اعادہ۔ بائیں بازو کی نمایاں شخصیت، فاروق طارق کو لے لیجیے۔ وہی پرانی بےمعنی باتیں۔ فیس بُک پر ان کی ٹائم لائن پر نظر ڈال لیں۔ ان کی گفتگو میں کسی مواد کی تلاش عبث ہے۔ تو بائیں بازو سے یہ سوال پوچھنا نہایت ضروری ہے یہ وہی پرانا بایاں بازو ہے، یا کچھ بدلا ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے تو نظر کیوں نہیں آ رہا۔
بلاشبہ ایک تحریک موجود ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں ایک ایسا سیاسی خلا موجود ہے، جسے ہر کوئی، اچھا ہو یا برا، پُر کر سکتا ہے۔ لیکن اگر بایاں بازو ’’اچھا‘‘ بننے کی کوشش کر لے، تو کوئی برا تو نہیں۔
مختصر یہ کہ آج بھی بائیں بازو کا جو بیانیہ سامنے آ رہا ہے، وہ وہی فرسودہ، اور گیا گزرا رونا دھونا ہے۔ کہیں سے کوئی ایسی خبر نہیں آ رہی کہ بائیں بازو میں کہیں کسی گوشے میں خودتنقیدی ہو رہی ہو اور نئی حقیقتوں کا احساس و ادراک موجود ہو۔
بایاں بازو بدل نہیں رہا۔ بالکل نہیں۔