اگلے چند سال ملک میں اسلحہ پھیلا کر طلبہ تنظیموں کو تشدد کی طرف دھکیلا گیا۔ اور پھر اس تشدد کو بنیاد بنا کر 1984 میں طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی گئی۔ ویسے تو پابندی تمام یونینز پر تھی، لیکن جماعتِ اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ یونیورسٹیوں پر قبضہ کرے۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ فیکلٹی اور انتظامیہ میں بھرے گئے۔ اور رفتہ رفتہ یونیورسٹیاں جو کبھی سیاسی لیڈر پیدا کیا کرتی تھیں، دہشتگرد پیدا کرنے لگیں۔ ان دہشتگردوں نے دنیا بھر کی دہشتگرد تنظیموں میں جا کر ملک کا نام خوب ’روشن‘ کیا۔
ریاستی پالیسیوں کے طفیل طلبہ تنظیموں کے نام پر سیاسی جماعتوں کے ونگز کو غنڈہ گردی کے لئے وافر مقدار میں اسلحہ میسر آتا رہا۔ اور جب یہ تنظیمیں اپنے قد سے بڑھنے لگیں تو اسی تشدد کی پاداش میں ان کو چن چن کر مارا گیا، اور ملک سے طلبہ یونین نام کی چیز ہی ختم کر دی گئی۔
35 سال جس طبقے کی زباں بندی پر آپ نے محنت کی ہو، وہی اگر منہ پھاڑ کر بولنے لگے تو ہاتھ پاؤں پھولنا تو بنتا ہے۔ سو وہی ہوا۔ ایک ہی مارچ کے بعد ریاست نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے کا فیصلہ کر لیا۔
پہلے تو اپنے غلاموں کے ذریعے سوشل میڈیا پر ان طلبہ کے خلاف مہم چلوائی گئی کہ یہ امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن جب حقائق سامنے آئے کہ کوئی چنگچی پر بیٹھ کر پنجاب یونیورسٹی پڑھنے جاتی رہی ہے تو کوئی فیس نہ بھر پانے کی وجہ سے سمسٹر فریز کروانے پر مجبور ہے، تو ایک نیا پینترا پھینکا گیا۔ کہ ان طلبہ کو بیرونی فنڈنگ میسر آ گئی ہے۔ کوئی پوچھے کہ ان الزامات کا کیا ثبوت ہے تو جواب ندارد۔
جب یہ تمام حربے ناکام ہوتے نظر آئے تو جمعہ کو صبح پہلے دو حکومتی وزرا کی جانب سے طلبہ تحریک کے حق میں بیانات دیے گئے۔ گورنر پنجاب سے ان سے ملنے اور انہیں مطالبات کے تسلیم کیے جانے کی یقین دہانی کروانے کی ہدایت کی گئی۔
لیکن رات ہوتے ہی حکم جاری کیا گیا کہ اس مارچ میں سے کوئی سازش کا عنصر تلاش کرو۔ خودساختہ بین الاقوامی سیاسیات کے ماہرین نے ’ہانگ کانگ سازش‘ جیسی ‘دور کی کوڑی‘ لا کر دی۔
اور دوسری طرف حکم صادر دیا گیا کہ عالمگیر وزیر کو گرفتار کر لو۔ محترم استاد عمار علی جان، اپنے ہاتھوں سے جوان بیٹے کی لاش دفنانے والے باپ اقبال لالہ، پشتون طالب علم عالمگیر وزیر، بائیں بازو کے سیاسی رہنما فاروق طارق اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی۔
یکایک صورتحال تبدیل ہو گئی۔ صبح حق میں ٹوئیٹ کرنے والے وزیر موصوف اگلے روز ’اردو کی چاشنی‘ سے پھرپور ٹوئیٹس کرتے مارچ میں شامل کسی مقرر کو جاہل قرار دینے لگے اور ’اس کی ڈگری‘ کا اچار ڈالنے کی اہمیت پر زور ڈالتے دکھائی دیے۔ ساتھ ہی بیان داغ دیا کہ ’’سٹوڈنٹس یونینز ضرور ہونی چاہیں لیکن genuine یونینز ہوں جیسے آکسفورڈ، ہاروڈ اور کیمبرج میں ہیں، سیاسی جماعتوں کے جتھے نا ہوں‘‘۔ اس بات سے قطع نظر کہ اردو کی چاشنی سے مرعوب وزیرِ موصوف کو ’نا‘ اور ’نہ‘ کا فرق نہیں معلوم، معصومانہ سوال یہ ہے کہ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کیا ہے؟ کیا یہ کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں؟ اگر ہے، تو اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ یا پھر کم از کم اس دلیل کو دوبارہ دہرانے سے پرہیز کریں۔
صوبائی وزیر اطلاعات بولے کہ ’وہاں مطالبات کی آڑ میں کچھ اور ہو رہا تھا‘۔ ’کچھ اور‘ کی وضاحت مانگی گئی تو فرمایا اس بات کو چھوڑیں۔
واضح ہو رہا ہے کہ اس مارچ نے حکمران طبقات کو پریشان کر دیا ہے۔ ریاست نے بڑی محنت سے جس طبقاتی نظام کی آبیاری کی ہے، اپنی نرسری میں سیاسی لیڈران اور لیبارٹریوں میں سیاسی جماعتیں پیدا کی ہیں، اس سارے نظام کو گزند پہنچے گی تو ردعمل تو آئے گا۔ اب ایف آئی آریں بھی کٹیں گی، سازش کے الزام بھی لگیں گے۔ ان کے ترکش میں موجود سبھی تیر دیکھ رکھے ہیں۔ وہ سب اب استعمال ہوں گے۔ جو کچھ وزیرستان میں ہوتا تھا اور نظروں سے اوجھل رہتا تھا، وہ سب اب لاہور، فیصل آباد، خانیوال، راولپنڈی اور کراچی میں بھی ہو رہا ہے۔ اور سوشل میڈیا کے دور میں سب کو نظر بھی آ رہا ہے۔
لیکن طلبہ کو اب ہوش سے کام لینا ہوگا۔ اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ پہلا مرحلہ وہ تھا جب آپ کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ دوسرا مرحلہ تھا جب آپ کا ٹھٹھہ اڑایا جاتا تھا۔ اب وہ آپ کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انشا اللہ اگر آپ نے استقامت کا مظاہرہ کیا تو اگلا مرحلہ فتح کا ہے۔