میں اس تحریر میں بحیثیت ایک ادنیٰ سیاسی کارکن کے خان شہید کے افکار کے ایک ایسے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا جس پر میرے خیال میں اس سے پہلے کسی لکھاری نے روشنی نہیں ڈالی ہے۔ یہ پہلو خان شہید کے مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے باہمی احترام کا تعلق ہے۔
خان شہید برصغیر پاک و ہند بالخصوص پشتونخوا وطن پر برطانوی راج کے استعماری تسلط کے سخت ناقد اور مخالف تھے اور آزادیِ وطن کے لئے شب و روز انگریز سرکار کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ یہ سیاسی انتقاد اور مخالفت اس بنیاد پر نہیں تھی کہ انگریز آپ کے ہم مذہب نہیں تھے بلکہ مخالفت کی بنیاد یہ تھی کہ انگریز استعمار نے ہزاروں میل دور سے آ کر متحدہ ہندوستان اور پشتونخوا وطن پر ناروا قبضہ کر رکھا ہے اور یہاں بسنے والی اقوام بالخصوص پشتون قوم کی سیاسی اور معاشی آزادیاں سلب کر رکھی ہیں۔
فرنگی استعمار کی مخالفت کے نتیجے میں خان شہید نے اپنی عمر کا طلائی حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا لیکن ایک لمحے کے لئے بھی آپ کے خیالات و افکار میں انگریز قوم کے خلاف نسلی یا مذہبی تعصب کے عنصر نے غلبہ نہیں پایا۔ خان شہید جہاں ایک جانب برطانوی استعماری راج کے سخت مخالف تھے تو دوسری جانب جو انگریز یہاں فلاحی کاموں اور خدمت خلق کے سلسلے میں آئے تھے ان سے آپ کا رویہ انتہائی ہمدردانہ اور مشفقانہ تھا اور آپ ان کی انسانی خدمات کے مداح تھے۔
اس ضمن میں خان شہید اپنے سوانح عمری "زما ژوند او ژوندون" کی پہلی جلد کے صفحہ 89 میں اپنے بچپن کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ بچپن میں، میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی بڑی بہن کے علاج کی غرض سے میشن اسپتال کوئٹہ میں داخل تھا۔ اسپتال کی عمر رسیدہ سربراہ ڈاکٹر مس سٹوورٹ اور اس کے دیگر ساتھی ڈاکٹرز جب مریضوں کا علاجِ معالجہ، اپنی دین کی تبلیغ یا اپنا عبادت کرتیں تو میں ان کے پاس کھڑا ہو کر غور سے ان کو دیکھتا رہتا تھا جب کہ دیگر پشتون بچے ان کے نزدیک جانے سے گھبراتے تھے۔ کیونکہ پشتون معاشرے میں یہ بات پھیلائی گئی تھی کہ یہ بچوں کو اغوا کرتی ہیں اور بعد ہذا جبراً مذہب تبدیل کروا کر ان کو کرسچین بنا دیتی ہیں۔
دھیرے دھیرے مس سٹوورٹ بھی میری موجودگی محسوس کرنے لگیں اور میری اس بے ساختہ قربت کے باعث اس سے بھی مجھے انسیت ہونے لگی۔ وہ مریضوں کا معائنہ کرتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ ہو لیتی، کبھی کبھار اپنے ساتھ گھر لے جاتیں اور اتوار کے دن بگھی میں بھٹا کر گرجا گھر لے جاتی تھیں۔ ایک بار رات کے کھانے کے لئے گھر لے گئیں تو میرے والدین نے مجھے دوبارہ ان کے ساتھ کھانا کھانے سے منع کیا۔ میرے وجہ پوچھنے پر بتایا کہ وہ حرام چیزیں کھاتی ہیں۔ میں نے کہا کھانے میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے میں نہیں جانتا تھا۔ یہ سن کر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ لوگ کیوں ان کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
مس سٹوورٹ مجھے اپنا بیٹا پکارتی تھیں اور میں اسے ماں مانتا تھا۔ میں جب بھی کوئٹہ جاتا تو اسپتال جا کر ان سے ضرور ملتا تھا۔ پہلی بار جب فرنگی استعمار نے مجھے قید کیا تو مس سٹوورٹ نے ہمارے گھر آ کر میری ماں کی کافی دلجوئی کی تھی۔ ان کی خدمت خلق کا جذبہ اور فلاحی کام دیکھ کر مجھے افسوس ہوتا تھا کہ ہمارے مذہبی علما کیوں اس طرح کے فلاحی کام نہیں کرتے۔
بچپن ہی سے انسانیت سے محبت اور دیگر مذاہب کا احترام خداوند نے خان شہید کی ذات کا حصہ بنا دیے تھے اور شعوری عمر میں پہنچنے کے بعد بھی یہ صفات آپ میں بدستور موجود رہیں۔ انگریز سرکار کی قید و بند کی صعوبتیں اور سختیاں بھی خان شہید سے یہ صفات نہ چھین سکیں کہ آپ فرنگی سرکار کے ظلم و ستم کے ردعمل میں انگریز اور کرسچن ہونے کے ناطے مس سٹوورٹ سے نسلی اور مذہبی امتیاز برتتے ہوئے ان سے قطع تعلق کر لیں بلکہ جب تک وہ یہاں رہیں آپ نے ان سے تعلق برقرار رکھا۔
پشتونخوا وطن کے کچھ حصے افغانستان سے علیحدہ کر کے ہندوستان میں شامل کر دیے گئے تھے۔ انگریزوں کے علاوہ یہاں بسنے والے پشتونوں کا ہندوؤں سے بھی روزمرہ زندگی میں پالا پڑتا تھا۔ خان شہید کے مطابق ایک تو فرنگی استعمار نے ناروا پروپگنڈے کے ذریعے ہندوؤں کو ڈرانے کے لئے ان میں پشتون قوم کے خلاف مختلف دقیانوسی تصورات پھیلا رکھے تھے اور دوسری وجہ کاروبار کے سلسلے میں صرف کوہ نورد اور صحرا نورد ناخواندہ پشتون ہی سوداگری کی غرض سے ہندوستان کے مختلف شہروں میں جاتے تھے جس کے نتیجے میں ہندوؤں میں پشتون قوم کے متعلق مختلف غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں اور ان وجوہات کی بنا پر وہ پشتونوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہندوؤں کے تفریحی میلوں اور بعض اونچی دکانوں میں ان کا داخلہ ممنوع تھا جو مذہبی کینہ و عناد کا سبب بن رہا تھا۔
خان شہید ہندوؤں کے ساتھ مختلف مجالس اور محفلوں میں ان مذہبی تعصبات اور تفریقات کو ختم کرنے کے لئے کوششیں کرتے رہتے تھے۔ آپ ہندوؤں سے کہتے تھے کہ ایسے امتیازی رویوں سے رد عمل میں مذہبی تعصب، کینہ اور عناد جنم لیتے ہیں۔
اس تناظر میں خان شہید اپنی سوانح عمری کی پہلی جلد کے صفحہ 228 میں لکھتے ہیں کہ 1925 میں میں میوے کے کاروبار کے سلسلے میں حیدرآباد چلا گیا اور وہاں ایک ہندو آڑھتی بول چند کے کمرے میں اس سمیت تین چار اور ہندو مزدوروں کے ساتھ قیام پذیر ہوا۔ قیام کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے کھانا اور پانی اپنے ہاتھ سے دیتے تھے۔ ایک بار تو مجھے پانی کے مٹکے کو ہاتھ لگانے سے بھی منع کیا گیا۔ یہ بات مجھے بہت ہی بری لگی لیکن میں اس وقت خاموش رہا۔ ایک ہفتے بعد جب ہمارے درمیان کچھ مانوسیت بڑھی تو میں نے سب کو جمع کر کے ان سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو میرے طرزِ زندگی میں کوئی ناپاکی نظر آتی ہے تو مجھے بتا دیجیے۔ اگر کوئی ناپاکی نظر نہیں آتی ہے اور صرف میرے دین اسلام کے سبب آپ لوگ کراہت محسوس کرتے ہیں تو میں آپ کے مذہب کو بالکل بھی نہیں کوسوں گا لیکن یہ میرا ضمیر اور غیرت گوارا نہیں کرتا کہ آپ مجھ سے کراہت محسوس کریں اور میں چپ چاپ آپ لوگوں کے ساتھ اس کمرے میں رہوں۔ ہمارے مابین مذہب کے اس بیر کو ختم ہونا ہوگا ورنہ میں اپنے رہنے کے لئے علیحدہ بندوبست کروں گا۔
خان شہید مزید بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دو ٹوک مؤقف کے بعد ہمارے درمیان مذہبی تعصب کے خاتمے کا فیصلہ ہوا اور آخر کار نوبت یہاں تک آگئی کہ انہوں نے سب کا کھانا بنانے کے لئے مسلمان باورچی رکھ لیا۔ بات صرف یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ دوسرے ہندو آڑھتیوں نے بھی مذہبی تعصبی روش چھوڑ کر میوے کے پشتون سوداگروں کے ساتھ ایک برتن میں کھانا پینا شروع کیا۔ مزید برآں ماضی میں جو ہندو آڑھتی کوئٹہ اور چمن آتے تھے تو وہ اپنے لئے خود کھانا تیار کرتے تھے یا ہم بازار کے کسی ہندو کے ذریعے ان کی خوراک کا اہتمام کرتے تھے۔ لیکن اس تبدیلی کے بعد یہ تکلف بھی ختم ہو گیا اور ہندو آڑھتی مقامی پشتون میوہ سوداگروں کے گھروں میں بنائے گئے کھانے کھانے لگے اور مذہب کے نام پر یہ بیر ختم ہو گیا۔
مذکورہ بالا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ خان شہید نہ صرف دیگر مذاہب کا احترام کرتے تھے اور ان کے پیروکاروں سے میل جول میں کوئی تعصب نہیں برتتے تھے بلکہ دلیل سے ان کو اپنے دین اسلام کا احترام کرنے پر رضامند کرتے تھے اور باہمی مذہبی احترام کی بنیاد پر ان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے تھے۔
خان شہید نے جب اپنی سیاسی جماعت انجمن وطن کی بنیاد رکھی تو اس میں کوئٹہ کے ہندوؤں، سکھوں اور پارسیوں کی بڑی تعداد نے شمولیت اختیار کی۔ مسلمان حریت پسند رہنماؤں کے ساتھ ساتھ خان شہید کے گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور دیگر ہندو سیاسی رہنماؤں کے ساتھ اچھے سیاسی تعلقات تھے اور شانہ بشانہ انگریز کو اس خطے سے نکلنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور اس مشترکہ سیاسی جدوجہد میں کبھی مذہب ان کے مابین آڑے نہیں آیا۔
موجود دور میں جب ہمارے معاشرے میں مذہب کے نام پر انسانوں میں منافرت پھیلائی جا رہی ہے، مذہبی عدم برداشت بڑھی رہی ہے، جس سے ہمارا معاشرہ ایک گھٹن زدہ معاشرہ بن چکا ہے، آئے روز پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اقلیتی مذاہب کے پیروکار امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں تو ان حالات میں اس عظیم ہستی کی مذہبی رواداری اور بقائے باہمی کے متعلق تعلیمات ہمارے معاشرے میں بسنے والے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔