سندھ یونیورسٹی جامشورو نے ریوولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف) اور پراگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی آر ایس ایف) سمیت دیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد طلبا و طالبات کو جامعہ سے نکالنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز ڈاکٹر محمد یونس لغاری کی طرف سے 50 کے قریب طلبا و طالبات کو ’کال اپ نوٹس‘ جاری کرتے ہوئے گزشتہ روز 30 نومبر کو والدین کے ہمراہ ڈسپلن کمیٹی کے سامنے طلب کر رکھا تھا، جہاں طلبہ کو سیاسی سرگرمیاں کرنے کی پاداش میں جامعہ سے فارغ کئے جانے کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
’کال اپ نوٹس‘ میں لکھا گیا ہے کہ”ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز کے مشاہدہ میں آیا ہے کہ آپ اعلیٰ حکام کی پیشگی اجازت کے بغیر جامعہ میں طلبہ یونین کی بنیادیں رکھنے میں ملوث ہیں۔ آپ کا معاملہ ڈسپلنری کمیٹی میٹنگ میں رکھا گیا ہے لہٰذا آپ کو اپنے والد یا سرپرست کے ہمراہ منگل 30 نومبر کو صبح 10 بجے ڈین فیکلٹی آف نیچرل سائنس کے دفتر میں حاضر ہونے کی ہدایت دی جاتی ہے"۔
واضح رہے کہ جن طلبا و طالبات کو یہ نوٹس بھیج کر گزشتہ روز طلب کیا گیا ہے وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں۔ گزشتہ عرصہ کے دوران آر ایس ایف حیدرآباد کے کنونشن کے سلسلہ میں مختلف تعلیمی اداروں میں آر ایس ایف کی تنظیم سازی کی تھی، اسی طرح پی آر ایس ایف کی جانب سے بھی مختلف تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی کی گئی تھی۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ تنظیموں کی تنظیم سازی کو طلبہ یونین قرار دیکر ان کے خلاف تادیبی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
طلبہ تنظیموں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو کی انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو طلبہ نے مسترد کرتے ہوئے انتقامی اور تادیبی کارروائیوں کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔
ادھر آر ایس ایف، جے کے این ایس ایف اور پی آر ایس ایف کے مرکزی قائدین کی جانب سے بھی سندھ یونیورسٹی کے اس اقدام کو غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس طرح کے اقدامات فی الفور بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
آر ایس ایف اور جے کے این ایس ایف کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر سندھ یونیورسٹی جامشورو کی انتظامیہ نے اس طرح کے تادیبی اقدامات کو جاری رکھا تو ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ طلبہ حقوق پر کسی طرح کا بھی شب خون برداشت نہیں کیا جائے گا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی، فیسوں میں اضافہ اور طلبہ حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں سندھ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک میں منظم و متحد طلبا و طالبات کو امتحانات کے دوران ’کال اپ نوٹس‘ کی آڑ میں ہراساں کرنے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کرنا نہ صرف ہمارا جمہوری حق ہے بلکہ اس ملک کا آئین اور قانون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے ”آئین کے آرٹیکل 17 نے پاکستان کے ہر شہری کو ایسوسی ایشن اور یونین بنانے کے حق سے مستفید کیا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے طلبہ سے یہ حق جبری طور پر چھینا گیا ہے اور اب جب طلبہ اس پابندی کے خلاف منظم و متحد ہونا شروع ہوئے ہیں تو یونیورسٹی نے اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے اپنانا شروع کر دیے ہیں۔“
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے: ”کال اپ نوٹس کی آڑ میں طلبہ کو ان کے والدین کے ہمراہ بلا کر ذلیل و رسوا کرنا انتہائی شرمناک عمل ہے۔ یہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں کہ ایک طرف سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں قرارداد منظور کی جاتی ہے تو دوسری طرف سندھ کی سب سے بڑی یونیورسٹی کی انتظامیہ اْنہی قراردادوں کی دھجیاں بکھیرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہم انتظامیہ کو بتانہ چاہتے ہیں کہ طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کرنا نہ صرف ہمارا آئینی و قانونی حق ہے بلکہ کسی بھی جمہوری ملک میں طلبہ کو متحد ہونے سے روکنا اور ان کی جمہوری آواز کو دبانہ ایک بدترین غیر جمہوری عمل کے مترادف ہے۔“
پریس ریلیز کے مطابق: ”یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو ‘Resticate’ کرنے کی دھمکیاں ان کے حوصلوں کو کسی طور پر پست نہیں کر سکتیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے یہ اوچھے ہتھکنڈے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ انتظامیہ گزشتہ کچھ ماہ میں طلبہ کے شعور میں ہونے والے بے پناہ اضافے اور ان کے متحد ہونے سے کس قدر خوف زدہ ہے۔ حال ہی میں یونیورسٹی انتظامیہ نے یہاں فیسوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جس سے معاشی طور پر کمزور طلبہ کے لیے یونیورسٹی کے دروازے پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب طلبہ کو ہراساں کرنا اب معمول بنتا جا رہا ہے جس کے چلتے آئے روز طلبہ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یونیورسٹی کے استادوں سے لیکر ہر سطح پر طالبات کوہراساں کیے جانے کے واقعات کے خلاف اس انتظامیہ کی خاموشی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ان انسان نما بھیڑیوں کو انتظامیہ کی بھرپور حمایت حاصل رہتی ہے۔ سندھ کی یونیورسٹیز میں پہلے نائلہ پھر نمرتا اور اب نوشین کی مبینہ خودکشی کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ انتظامیہ انہیں اس قدر بے بس کر دیتی ہے کہ اس ہوس زدہ ماحول میں گھٹ گھٹ کر زندگی بسر کرنے سے انہیں اس زندگی کا خاتمہ کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ دوسری جانب ان واقعات پر تشکیل دی جانے والی انکوائری رپورٹس کو پبلک نہ کرنا بھی انتظامیہ کا ایک شرمناک عمل ہے جو اس قسم کے واقعات کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔“
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم تمام طلبا و طالبات کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان ’کال اپ نوٹسوں‘ کو فوری طور پر واپس لیتے ہوئے طلبہ کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ ”ہم نہ صرف پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں طالب علموں کے لیے خوشگوار ماحول کے لیے کوشاں ایک منظم آواز ہیں۔ ہم سندھ یونیورسٹی کے طلبہ سے نہ صرف یکجہتی کرتے ہیں بلکہ ان کی اس جدوجہد میں شانہ بشانہ ان کے ہمراہ کھڑے ہیں اور ان کی آواز کو ہر سطح پر بلند کرینگے۔ “