یوٹیوب چینل 'ٹاک شاک' پر اپنے تازہ وی لاگ میں عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اکتوبر کے آخر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ان کے استعفے کو سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججز کے حق میں ووٹ دینے کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا مگر اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ اعظم نذیر تارڑ کے مستعفی ہونے کی وجہ لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ہونے والی نعرے بازی بنی۔ اس نعرے بازی کے دوران اعظم نذیر تارڑ سٹیج پر موجود تھے اور تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ انہوں نے کسی کو نعرے لگانے سے منع نہیں کیا۔ اس نعرے بازی کے بعد آرمی لیڈرشپ شدید غصے میں آ گئی اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے حکومت کو لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک (ن) لیگی رہنما کے ذریعے ایک پیغام بھیجا گیا۔ حکومت نے من و عن یہ تو نہیں بتایا کہ اس پیغام میں حکومت سے کیا کہا گیا تھا تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے کہا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ایک مہینے میں فوج کی اعلیٰ قیادت تبدیل ہونے جا رہی ہے تو ہم اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرنا چاہتے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ مجھے مستعفی ہونے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے اور انہوں نے فوراً استعفیٰ پیش کر دیا۔ اب 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ جب ریٹائر ہوگئے ہیں اور انہوں نے فوج کی کمان جنرل عاصم منیر کے سپرد کر دی ہے تو اسی شام وزیر اعظم شہباز شریف نے (ن) لیگی وزرا کا ایک وفد اعظم نذیر تارڑ کے پاس بھیج دیا۔ وزیراعظم نے اعظم نذیر تارڑ کو یہ پیغام دیا کہ ان کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں کیا گیا اس لیے وہ استعفیٰ واپس لے کر دوبارہ اپنا عہدہ سنبھال لیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ہے اور پھر سے ملک کے وزیر قانون بن گئے ہیں۔
عمر چیمہ نے بتایا کہ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے 23 اکتوبر کے اجلاس میں وزیر قانون نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نامزد کردہ ججوں کی تعیناتی کے حق میں ووٹ اپنی مرضی سے نہیں دیا تھا بلکہ ان پر دباؤ ڈال کے یہ ووٹ چیف جسٹس کے حق میں دلوایا گیا تھا۔ عمر چیمہ نے بتایا کہ کہانی اس سے یکسر الٹ ہے۔ وزیر قانون تو الٹا حکومت کو قائل کرتے رہے تھے کہ چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججوں کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور انہیں ان کی مرضی کے جج لگانے دیں، ہماری مخالفت سے کوئی انقلاب نہیں آ جانا۔ سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ووٹ ڈالنا ان کے استعفے کی وجہ نہیں بنا تھا۔