جیو نیوز کے پروگرام 'جیو پاکستان' میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے بتایا کہ جس دن شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کرکے یہ فیصلہ سنایا کہ ہم تحریک عدم اعتماد لے کر آ رہے ہیں اس کے بعد افراتفری پیدا ہو گئی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، اہم اداروں کے بہت سارے لوگوں کے تبادلے کر دیے گئے کہ تم نے ہمیں اس بارے میں بتایا کیوں نہیں۔ پی ڈی ایم کا یہ بہت خفیہ اور کامیاب آپریشن تھا۔
تحریک عدم اعتماد جب پیش ہو گئی تو جنرل باجوہ کو یہ مشکل پیش آئی کہ تب تک فوج تین کور کمانڈرز کانفرنسوں میں بحث مباحثے کے بعد اصولی فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی تو اب جنرل باجوہ خفیہ ایجنسیوں کو تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے نہیں کہہ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں فوج کے ادارے کو بائی پاس کرتے ہوئے یعنی فوج سے باہر ہی باہر اپنے رکھے ہوئے لوگوں کے ذریعے سے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا، بلوچستان عوامی پارٹی کو کہا کہ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑو۔ حامد میر نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کو اغوا کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں جن کی تفصیل بھی کسی وقت سامنے لاؤں گا۔
پرویز الہیٰ نے جس طرح شہباز شریف کے ساتھ کمٹ منٹ کر لی تھی تو یہ بھی جنرل باجوہ کے لیے بہت بڑا سرپرائز تھا۔ انہیں لگ رہا تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف پرویز الہیٰ کو کبھی قبول نہیں کریں گے مگر ان کا اندازہ یہاں بھی غلط ہو گیا۔ پھر انہوں نے پرویز الہیٰ کو مونس الہیٰ کے ذریعے پیغام بھیج کر کہا کہ عمران خان کا ساتھ دیں۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہو گئی تو جنرل باجوہ نے پی ڈی ایم میں شامل 13 جماعتوں کے رہنماؤں کو ملاقات کے لیے بلایا اور ان سے کہا کہ تحریک واپس لے لیں مگر سبھی نے انکار کر دیا۔ اس ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اس کے بعد جنرل باجوہ نے شہباز شریف اور آصف زرداری کو علیحدہ سے بلایا، اس بات کا ڈی جی آئی ایس آئی کو علم نہیں تھا۔ جنرل باجوہ نے دونوں سے ایک مرتبہ پھر وہی مطالبہ کیا کہ تحریک عدم اعتماد واپس لیں مگر دونوں نے ایک مرتبہ پھر انکار کر دیا۔ جنرل باجوہ آخر تک عمران خان کو بچانے کی پوری پوری کوشش کرتے رہے مگر عمران خان اپنے رویے کی وجہ سے حکومت نہ بچا سکے۔ دراصل عمران خان کو یہ لگتا تھا کہ جیسے میں باجوہ صاحب کی ساری باتیں فوراً مان جاتا ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ باجوہ صاحب باقی سیاست دانوں کو تحریک پیش کرنے سے روکتے اور وہ پھر بھی پیش کر دیتے۔ عمران خان کو یہی لگتا رہا کہ میری طرح باقی سیاست دان بھی باجوہ صاحب کی بات فوراً مان جاتے اگر باجوہ صاحب انہیں کہتے ۔ اسی لیے عمران خان یہی سمجھتے رہے کہ جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ ڈرامہ کیا ہے۔