جاپان کی ایک عدالت نے حال ہی میں ایک ایسے باپ کو بری کر دیا جس نے اپنی بیٹی کو 13 سے لیکر19 سال کی عمر تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور جب کبھی بیٹی نے مزاحمت کی کوشش کی تھی تو اسکو باپ کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ باپ کو بری کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ جاپان کا قانون جنسی تشدد کے سلسلے میں اس بات کا ثبوت مانگتا ہے کہ اس جرم کا شکار ہونے والے کے ساتھ اس قدر زبردستی کی گئی ہو کہ جس کے نتیجے میں وہ جسمانی طورپر اس قدر نڈھال ہو جائے کہ وہ اس قسم کی پیش رفت کے خلاف مزاحمت کے قابل نہ رہے۔
45 سالہ جن یامموتو، جو لڑکپن میں اپنے باپ کے ہاتھوں اس جنسی تشدد کا نشانہ بنی تھی، اس نے اس عدالتی فیصلے پر اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا "ایک بار پھروہی ہوا جس کا مجھے ڈرتھا۔" جاپانی انصاف اس طرح کے جنسی جرائم کو جرم کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتا اور یہ قطعی ناقابل برداشت صورتحال ہے۔
اسپین کے شہربارسلونا کی ایک عدالت نے 14 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والے پانچ افراد کواس لئے رہا کردیا کہ لڑکی نشے میں مد ہوش تھی ، اس نے اس زیادتی کے خلاف کوئی مدافعت نہی کی اور مردوں نے بھی اس پرکوئی تشدد نہیں کیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ، بارسلونا کی میئر آڈا کلاؤ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نہائت افسوسناک اور "اشتعال انگیز" فیصلہ ہے۔
جہاں اسپین کے نظام عدل نے جنسی زیادتی کے مجرم کو بری کرنا انصاف کے عین مطابق سمجھا وہاں برطانیہ کی عدالت نے ایک ایسے ہی جنسی جرم کے مقدمے میں اس کے بالکل برعکس فیصلہ سنایا۔ برطانیہ کی ایک 43 سالہ خاتون ٹیچرپر یہ الزام تھا کہ اس نے اپنے ایک چھوٹی عمر کے طالب علم کو کسی ہوٹل میں محض اس مقصد کے لئے مدعو کیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرسکے۔ فیصلہ کرتے وقت عدالت نے لڑکے سے یہ جاننے کی قطعی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی کہ کیا اس نے اس طرح کی پیشرفت کے خلاف کوئی مزاحمت کی تھی یا نہیں۔ برطانوی نظام عدل کواس سے کوئی سروکار نہیں تھا جبکہ جاپانی اور اسپینی عدالتوں کے لئے ایسے مقدمے کے فیصلے کا سارا دارومدار اس یقین دہانی پر تھا۔ لہذا یہ مقدمات اس بات کا مظہر ہیں کہ ہر معاشرے میں جنسی زیادتی کے مختلف معنی اور مفہوم ہوتے ہیں۔ پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے ایسے جرائم پر کس قسم کے رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کا اندازہ وہاں کے مروجہ قوانین سے نہیں بلکہ ان معاشروں میں رونما ہونے والے ایسے واقعات اوران سے متعلق معاشرتی ردعمل سے کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں، سال 2018 کے دوران جنسی حملوں کے کم از کم چار ایسے واقعات اخبارات کی شہ سرخی بنے جن میں جرم کا ارتکاب باپ نے کیا تھا۔ پنجاب میں تین اور خیبر پختونخوا میں ایک واقعہ اخبارات کی شہ سرخی بنا تھا اور ان جرائم کا شکار ہونے والی تمام کی تمام متاثرین نوعمر لڑکیاں تھیں۔
بلوچستان میں، ایک 13 سالہ بچی کو اس کے بھائی نے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا جبکہ خیبر پختونخواہ کے پشاورشہر میں ایک 14 سالہ لڑکی کو اس کے بھائی اور چچا نے جنسی جرائم کا نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے وہ حاملہ ہو گئی تھی۔
جنسی زیادتیوں کے بارے میں جواعداد و شمارمیں نے ذاتی طور پر اکٹھے کیے ہیں ان کے مطابق، جنسی جرائم پاکستان کے تمام علاقوں سے رپورٹ کیے جاتے ہیں، لیکن، پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں 2018 میں ملک بھر میں ہونے والے جنسی جرائم کے 70 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کئے گئے جن میں 30 افراد جنسی جرائم کے بعد ہلاک کر دیئے گئے تھے اور 108 صرف جنسی زیادتی کا شکار ہوئے تھے۔ جبکہ سندھ میں (9 ہلاک اور جنسی زیادتی کا شکار18)، خیبرپختونخواہ (7 ہلاک اور جنسی زیادتی کا شکار14)، بلوچستان (2 ہلاک اور جنسی زیادتی کا شکار 1)، اور اسلام آباد میں ایک زخمی اور آزاد جموں و کشمیر میں ایک ہلاک ہو گیا تھا۔
میرے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں 191 خواتین اور بچے جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنے تھے اور ان میں 70 فیصد (شیر خوار ، نابالغ اور نوعمر) بچے اور 30 فیصد بالغ خواتین شامل تھیں۔ اجتماعی عصمت دری کے 32 اور عصمت دری کے 159 واقعات ہوئے تھے۔ اجتماعی عصمت دری اور عصمت دری کے ان واقعات میں، متاثرہ افراد کو متعدد نوعیت کے جرائم کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ ضروری ہیکہ ان دونوں جرائم کے بارے میں الگ الگ بحث کی جائے۔
پاکستان میں اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات:
سال 2018 کے دوران پاکستان میں 19 خواتین اور 13 بچے (9 لڑکیاں اور 4 لڑکے) اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔ ان میں سے تین کو اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا تھا جبکہ اجتماعی عصمت دری کا شکار ایک خاتون نے تین بااثر مجرموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے پولس کے انکار پر خودکشی کر لی تھی۔ اجتماعی عصمت دری کے دوران تین خواتین کی فلم بندی بھی کی گئی تھی اور اسی جرم کے دوران ایک نوعمر لڑکے کو بھی فلمایا گیا تھا۔ ایک اور واقعے میں، پنجاب کے مظفر گڑھ میں دس بااثر افراد نے ایک ماں اور اس کی نو عمر بیٹی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری انکے بوڑھے والدین کے سامنے کی تھی۔ جبکہ شہرلیہ میں ایک لڑکی کو اس کے کزن کے سامنے چار ملزمان نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
بہاولپور میں، اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) کو ایک ایسی عورت سے زیادتی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جو مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنی تھی اور وہ پولیس کے پاس انصاف کی تلاش میں گئی تھی۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک ذہنی طور پر معذور نوعمر لڑکی کو ننکانہ صاحب میں ایک ایمبولینس کے اندر دو افراد نے مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور نواب شاہ میں اجتماعی زیادتی کے بعد ایک 14 سالہ بچی کو تین منزلہ عمارت سے نیچے پھینک دیا تھا جس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو گئی تھی۔ قصور میں ایک نوعمر لڑکی کے والد کو اس کے ایک ماموں اور ایک ہمسایہ کے ساتھ ملکر لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فیصل آباد کے چک جھمرہ کے علاقے میں کم سے کم سات ماہ تک ایک بچی کو اس کے والد کی طرف سے مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
کچھ واقعات سے یہ بھی پتہ چلا کہ کبھی کبھی خواتین بھی اپنے مردوں کو اس جرم میں مدد فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ حافظ آباد میں ایک چھوٹی بچی کو کسی بہانے سے پڑوسی خاتون رضیہ بی بی نے اغوا کیا۔ بعدازاں ملزم رضیہ نے ابوبکر، علی حسن، علی رضا اور ایک نامعلوم ملزم کے ساتھ مل کر اسے کار میں ڈالکرگوجرانوالہ روڈ پر ائیرپورٹ کے قریب ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں ملزمان نے اسے دو دن تک زیادتی کا نشانہ بنایا اور ملزم رضیہ بی بی نے مبینہ طور پر اس جرم کی نگرانی کی۔
پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات
میرے اعداد و شمار کے مطابق، 2018 کے دوران ملک بھر میں عصمت دری کے شکار افراد 149 تھے۔ ان میں 27 خواتین اور 122 بچے تھے (86 لڑکیاں اور 36 لڑکے)۔ عصمت دری کے 149 متاثرین میں سے 45 کو زیادتی کے بعد ہلاک کیا گیا تھا (14 بالغ خواتین اور 31 بچے)۔ ان میں سے کچھ افراد کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔ دو کو زندہ جلایا گیا، ایک کو عصمت دری کے بعد زہر دے کر مار دیا گیا جبکہ ایک اور واقعہ میں عصمت دری کے دوران فلم بندی بھی کی گئی تھی۔ اس جرم کا نشانہ بننے والوں میں خصوصی طور پر بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جن کو زیادتی کا نشانہ بنانے سے پہلے اغوا کیا گیا تھا۔ عصمت دری کے واقعات میں قتل ہونے والوں کی شرح اجتماعی عصمت دری کے واقعات سے تین گنا زیادہ تھی۔
یہ تمام واقعات ان جرائم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جو پولس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ پنجاب کی ویب سائٹ کے مطابق 2018 کے 7 ماہ (جنوری-جولائی) کے دوران 1859 خواتین کی عصمت دری کی گئی اور 118 اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوئی تھی جبکہ سندھ پولیس کی ویب سائٹ میں 2018 کے پورے سال میں 325 عصمت دری کے واقعات اور اجتماعی عصمت دری کے 63 واقعات دکھائے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان میں جرائم سے متاثرین کے اعدادو شمارکے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ متاثرہ افراد کی عمر، انکی جنسی تقسیم اور متاثرہ افراد کے ساتھ ان جرائم کے مرتکب افراد کا رشتہ کیا تھا۔ یہ معلومات ہمیں پولس کی ان ویب سائٹ پر نہیں ملتی۔
اگلے مضمون میں ہم ہندوستان میں ہونے والے ایسے واقعات کا مقابلہ پاکستان کے واقعات سے کریں گے یہ سمجھنے کیلئے کہ ان میں کیا مماثلت اور فرق پایا جاتا ہے اور کون سا ملک ان سے زیادہ متاثر ہے۔