عمار کے ساتھ جن اور نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں نوفل سلیمی، سیف اللہ نصر، شاہ رکن عالم اور دیگر 19 لوگ شامل ہیں۔ اگر ہم ان نوجوانوں کے پرفائل کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ سب انتہائی پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔ جیسا کہ عمار رشید لاہور یونیورسٹی آف مینجمینٹ سائنسز لاہور اور برطانیہ کی سسیکس یونیورسٹی سے پڑھنے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد انہوں نے نہ صرف اسلام آباد میں موجود کچی آبادیوں اور سماج کے دیگر محروم طبقوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ بلکہ بطور گلوکار مختلف پلیٹ فارمز پر اس حوالے سے عام لوگوں میں شعور بھی اجاگر کیا۔ اسی طرح نوفل سلیمی بھی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں پڑھ رہے ہیں اور عوامی ورکرز پارٹی کے ایک سرگرم رکن کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
گرفتار کیے جانے والے دیگر نوجوان سیف اللہ نصر اور شاہ رکن عالم بھی اچھے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد عوامی ورکرز پارٹی سے وابستہ ہو کر محروم اور پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سارے نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔ تو بجائے ان کو عزت دینے اور ان کی بات سننے کے ان کو اتنے برے طریقے سے نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان پر غداری جیسے سنگین جرم کے تحت مقدمے بھی دائر کیے گئے۔ اور ضمانتیں بھی نہیں دی گئیں۔ اس ضمن میں ان کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔
ان کے ساتھ اس احتجاج کی وجہ سے رکن قومی اسمبلی محسن داؤڑ کو بھی گرفتار کیا گیا۔ جنہیں بعد ازاں رہا کر دیا۔ اسی طرح اس حوالے سے لاہور میں Women Democratic Front کی طرف سے کیے گئے احتجاج میں شرکت کرنے والے پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم محسن ابدالی کو ان کے گھرسے سفید کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد کی طرف سے اٹھا لیا گیا۔ مگر بعد ازاں ان کو بھی سوشل میڈیا پر مہم چلائے جانے اور پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کی طرف سے احتجاج کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔
اس ساری صورتحال پر اب سوال یہ ہے کہ یہ سب نوجوان تو صرف اپنا آئینی اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے ایک پر امن احتجاج کر رہے تھے۔ تو ان پر غداری کا مقدمہ کس لئے کر دیا گیا؟ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک شخص کو اپنے لوگوں کے حقوق کی بات کرنے کی وجہ سے غدار قرار دے کر اسے گرفتار کر لیا جاتا یے۔ اور اس کی گرفتاری کے خلاف اگر کچھ پڑھے لکھے نوجوان اس کے حق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کو بھی اس پاداش میں گرفتار کر کے ان پر بھی غداری کے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے سب نوجوانوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر تم کسی کے حق کے لئے آواز اٹھاؤ گے تو تم غدار قرار پاؤ گے۔ اس لئے بس خاموش رہو اور چپ چاپ سب سہتے رہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان نوجوانوں کی طرف سے طلبہ یونینز پر پابندی ہٹائے جانے والے مطالبے کو نہیں مانا جا رہا۔ کیونکہ اس سے تو ان میں سوال کرنے کی ہمت اور بڑھ جائے گی جو کہ ریاست کو منظور نہیں۔
اس سب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ریاست بھی ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے مودی کی ریاست سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں پر بھی جو لوگ اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں، ان کو گرفتار کر کے ان پر ریاست سے غداری کے مقدمات بنائے جاتے ہیں اور یہاں پر بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہماری ریاست مودی کو ضرور اس سب پر کوستی ہے مگر دوسری طرف عمل اس کی پالیسی پر ہی کرتی ہے۔
اور جس ریاست نے اپنے نوجوانوں کے ساتھ نوکریوں اور بہتر روزگار کے وعدے کیے تھے، وہ وعدے پورے کرنا تو درکنار، اب اپنے نوجوانوں کو اپنا آئینی اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے پرامن احتجاج کرنے پر ان کو گرفتار کر کے ان کو غدار قرار دے رہی ہے۔ مگر ریاست کو کوئی سمجھائے کہ کسی کے حق کے لئے آواز اٹھانا غداری نہیں ہے۔ اس لئے تھوڑا سا دل بڑا کر کے سب کو پرامن احتجاج کا حق دینا چاہیے۔ اور اگر کسی کے کوئی تحفظات ہیں تو ان سے بات چیت کر کے ان کا مداوا کرنا چاہیے نہ کہ ان کو گرفتار کر کے ان کو غدار قرار دے دینا چاہیے۔ کیونکہ ریاست نے اگر اس روش کو نہ بدلا تو اس سے فائدہ کی بجائے مزید نقصان ہی ہوگا۔