ہم پر امن لوگ ہیں۔ آئینِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ہم نے پنجاب اسمبلی کے باہرمحسن کی تا دمِ واپسی دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ ساری رات سے جاگتے تمام ساتھیوں نے سخت محنت کی، تمام لوگوں نے مختلف طلبہ، سول سوسائٹی اور بائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے دیگر گروپوں سے رابطہ کیا، کامریڈ بہرام نے گورنمنٹ کالج لاہور جبکہ علی آفتاب نے پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کو متحرک کیا۔ گورنمنٹ کالج میں بہرام نے ایم پی تھیٹر میں کھڑے ہو کر یادگار تقریر کی، جس کی بنا پر انہیں گارڈز پکڑ کر وی سی آفس لے گئے۔ تمام ساتھیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دھرنے کی تیاری کی، مختلف لوگوں نے پوسٹرز بنائے، پلے کارڈز لکھے، دھرنے کے دیگر خصوصی اقدامات کیے۔ ہم پر فنڈنگ کا الزام لگانے والوں کو بتلانا مقصود ہے کہ پیسوں کی کمی کی وجہ سے پرانے بچے ہوئے پلے کارڈز اور لکھے ہوئے چارٹس کی دوسری سائیڈ کو استعمال کیا گیا۔ کسی سے بھی پیسہ مانگے بغیر ہم نے دھرنے کے شرکا کو اجتماعی ضروری سامان ساتھ لانے کی اپیل کی۔
ہمیں معلوم تھا کہ دھرنے سے گرفتاریاں لازماً عمل میں لائی جائیں گی اور شاید کامریڈ عمار رشید، نوفل سلیمی، عالمگیر وزیر اور دیگر سیاسی اسیران کی طرح ہم پر بھی غداری کے مقدمے بنائے جائیں گے۔ کچھ لوگوں پر شدید گھریلو و سماجی دباؤ تھا۔ چند لوگ سہمے ہوئے تھے مگر ان کے اندر موجود نظریاتی پختگی اور کامریڈ شپ کا احساس تھا کہ انہوں نے ہر قسم کے پریشر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ قربانی دینے سے گریز نہ کیا اور سنگین نتائج کی پروا کیے بغیر باہر نکلے۔ میں نے کامریڈ محسن کی دی ہوئی شرٹ پہنی اور ایک مکمل بیگ تیار کر لیا، ضرورت کی تمام چیزیں اپنے ساتھ لیں اور یہ سوچا کہ بس اب وہیں ڈیرے ہیں۔ یہ طلبہ طاقت ہی تھی کہ حکام کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور دھرنا شروع ہوتے ہی محسن کو رہا کر دیا گیا۔
محسن کی گمشدگی یا اغوا سے اس کی رہائی تک کے یہ 13 گھنٹے کسی قیامت سے کم نہ تھے۔ اس تھوڑے سے عرصے میں مجھے یہ احساس شدت کے ساتھ ہوا کہ اپنوں کے اٹھا لیے جانے کا غم کتنا نڈھال کر دینے والا ہوتا ہے۔ اس وقت نے یہ باور کروایا کہ ایک نظریاتی سیاسی کارکن کی زندگی کن مشکلات سے عبارت ہے۔ آپ سماج میں ہونے والے ظلم پر خاموش رہ کر آسان اور پر آسائش زندگی گزار سکتے ہیں مگر انہوں نے معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ایک کٹھن نظریاتی و سیاسی راستہ چنا۔ یہ وہ عمل ہے جو یقیناً انہیں عام انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔
ہماری تحریک کی خوبی ہے کہ اس میں غریب اور متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہیں لہٰذا ان پر اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کا دباؤ ہوتا ہے۔ ان مراحل میں ہم سب نے وہ دباؤ برداشت کیا۔ میرے گھر والے میری سیاسی وابستگی کی حمایت کرتے ہیں مگر اس دفعہ انہوں نے بھی محتاط رہنے کی تلقین کی۔ مجھے کچھ ایسے لوگوں نے بھی فون کیے جنہوں نے کبھی میرا حال تک نہ پوچھا مگر نصیحتیں کرتے نظر آئے جس پر میں نے سیدھا جواب دیا کہ ’’آپ نے کبھی نہیں پوچھا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ کس حال میں ہوں اور آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کے لئے خاموش ہو جاؤں جو مجھ سے میرا حال پوچھتے ہیں اورانہیں شاید آپ سے زیادہ میرا احساس ہے؟ اگر کل میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا تو آپ نہیں یہ لوگ میرے لئے نکلیں گے‘‘۔ جواب سنتے ہی موصوف نے شرمندگی والی چپ سادھ لی اور فون بند کر دیا۔
ان 13 گھنٹوں میں محسن کی شکل میرے سامنے آتی رہی، اس کی گفت و شنید کا ایک خاص سٹائل کہ ہر بات پر کہنا کہ کامریڈ ’’Easy Scene A‘‘ میرے دل و دماغ میں گھومتا رہا۔ مجھ سمیت ہمارے تمام ساتھیوں کو شدید احساس ہوا کہ وہ مائیں بہنیں، بیٹیاں اور دوست اپنے گمشدہ پیاروں کے بغیر کیسے زندگی گزارتے ہوں گے جنہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے پیارے کہاں ہیں، زندہ ہیں یا مر گئے، اپنے شہر میں ہیں یا ملک کے کسی دوسرے کونے میں، وہ ہم سے کبھی مل پائیں گے یا نہیں۔ یہ ایسا احساس ہے جو شاید جس پر گزرتی ہے وہی بہتر جان سکتا ہے۔
پتھر دل، خود غرض، اور جن کے ساتھ ایسی نہ گزرے، اس احساس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ اسی لئے وہ بہت آسانی سے ان کے غم و غصہ کو ملک دشمن، غداراور نادان قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑا حلقہ ہے جو جانتا ہے کہ لاکھوں گمشدہ اور جیلوں کی سلاخوں میں قید افراد بے گناہ ہیں۔ مگر وہ صاحبِ علم و دانش صرف چائے کے ڈھابوں، حجام کی دکان اور تندور پر بیٹھ کر حکومت کے خلاف چہ مگوئیاں کرتے ہیں مگر ان مظلوموں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ ان کے آواز اٹھانے کے عمل کو پاگل پن تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے افراد پر جب خود ایسی گزرتی ہے تو ان کی مدد کے لئے بھی کوئی نہیں آتا اور آواز نہ اٹھانے کا یہ عمل مزید ناانصافیاں کو جنم دیتا ہے۔ جیسا کہ مارٹن نیوملر نے کہا تھا کہ:
’’پہلے وہ سوشلسٹوں کے لئے آئے، پر میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کے لئے آئے، پر میں خاموش رہا کیونکہ میں ٹریڈ یوننسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ یہودیوں کے لئے آئے، پر میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔
پھر وہ میرے لئے آئے، لیکن میرے لئے آواز اٹھانے والا کوئی بچا ہی نہیں تھا۔‘‘
اس احساس کا ادراک شاید کسی کو نہ ہو مگر محسن، اس کے خاندان اور کامریڈز کو ہے، اس کا احساس کامریڈ عمار رشید کے 5 سالہ بیٹے عیسیٰ، ان کی بیوی جیکلین اور ان کے ساتھیوں طوبیٰ، عاصم اور عصمت کو ہے، اس کا احساس نوفل اور ان کی ضعیف والدہ کو ہے جنہیں صرف اپنی نہیں بلکہ ہر اس انقلابی کی فکر ہے جو صرف اختلاف رائے یا اختلافی سیاست کرنے کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے، اس کا احساس عالمگیر وزیر اور اس کے خاندان والوں کو ہے جن کے گھر کے 15 سے زائد افراد دہشتگرد حملوں اور ڈرون دھماکوں میں مارے جا چکے ہیں۔ اس کا احساس ہر اس سیاسی و انقلابی اسیر، اس کی ماں، بہن، بھائی اور بیوی بچوں کو ہے جو حق کی آواز اٹھاتے اور ظالم کو للکارنے کے جرم میں پابند سلاسل ہیں، گمشدہ ہیں یا مارے جا چکے ہیں۔
ان اسیروں کے خاندان والوں کو باغی، غدار یا ملک دشمن قرار دے بھی دیں، تب بھی انہیں فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے پاس مزید کھونے کو کچھ نہیں۔ ان کے اندر پایا جانے والا غم و غصہ برداشت کرنا اور ان کا ادراک کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان پر الزام لگانے کے بجائے ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ انہوں نے نہ کبھی بندوق اٹھائی، نہ کوئی انتشار پیدا کیا بلکہ آئین پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسی کے دائرہ کار میں اپنی آواز بلند کی۔ انہوں نے ملک توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے کی بات کی، آئینی حقوق کے لئے آواز اٹھائی، صحت، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی بات کی، جمہوریت اور دستورِ پاکستان کی سر بلندی کی بات کی۔ ان آوازوں کو ملک دشمن قرار دینا ان کی جدوجہد کے ساتھ زیادتی ہے۔ وگرنہ فاطمہ جناح کو بھی غدار کہا گیا، فیض و جالب و فراز کو بھی غدار کہا گیا مگر ان کے مرنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ اصل ہیروز تھے۔ دنیا میں اربوں لوگ آئے اور آ کر چلے گئے مگر تاریخ نے صرف انہیں یاد رکھا جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت کے لئے وقف کی۔ ان جیسے انقلابی کارکنان پر ان کے ادوار میں بہت سے لوگوں نے تنقید کی مگر آج انہیں کوئی نہیں جانتا۔ ہیگل نے کہا تھا کہ
’’انقلابی سیاسی کارکنان ہی تاریخ کے ہیروز ہیں‘‘
یقیناً دنیا میں بہتری اور تبدیلی ایسی انقلابی آوازوں کی بدولت آئی۔ وگرنہ ہم آج بھی کسی بادشاہ یا انگریز کے غلام ہوتے۔ فاتح بادشاہوں اور انگریزوں کو اسی انقلابی سوچ نے شکست دی۔ ان کی تعداد ماضی کی طرح آج بھی کم ہے مگر ان کی نظریاتی پختگی اور اپنے نظریے کے ساتھ جڑت انہیں مزید ہمت اور حوصلہ فراہم کرتی ہے اور ان کی جدوجہد کسی نہ کسی صورت ضرور رنگ لاتی ہے۔ ایسے نظریاتی سیاسی اسیران کے لئے فیض نے انتساب لکھا۔
ان اسیروں کے نام۔۔
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
قید خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں۔۔!!