اس کے بعد وہ افراد نیچے اتر کر مجمع میں فرار ہو گئے۔ جب کہ دو پولیس اہلکار بھی وہاں موجود تھے، شرپسندوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے پولیس پیچھے ہٹ گئی۔
اطلاعات کے مطابق احمدیہ جماعت نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرانے کے لئے درخواست دے دی ہے۔
قبل ازیں ایک شخص عبد القادر پٹیل نے 29 ستمبر 2020 کو تھانہ پریڈی کراچی میں مقدمہ درج کروایا تھا کہ احمدیہ حال کراچی میں مسجد کی طرز پر مینار تعمیر کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ کراچی میں دو ہفتوں میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے مینار توڑنے کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے 18جنوری کو سہ پہر تین سے چار شرپسندوں نے مارٹن روڈ کراچی میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں سیڑھی لگا کر داخل ہو کر سامنے کے 2 میناروں کو نقصان پہنچایا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں اور ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات میں پچھلے کچھ عرصے سے کافی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
21 جنوری 2023 کو ضلع سیالکوٹ کے چک پیرو میں ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک 75 سالہ احمدی خاتون وفات پا گئیں تو مقامی مشترکہ قبرستان میں ان کی تدفین میں رکاوٹ کھڑی کر دی گئی۔ اس واقعے میں بھی پولیس نے حسب روایت احمدیوں کو مجبور کیا کہ میت کہیں اور لے جا کر دفن کر دیں۔ جس پر اس خاتون کی تدفین 250 کلومیٹر دور واقع ربوہ کے قبرستان میں جا کر کرنا پڑی۔
18 جنوری کو چند شرپسند افراد مارٹن روڈ کراچی پر واقع جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں سیڑھی لگا کر داخل ہو گئے اور انہوں نے سامنے کے دو میناروں کو نقصان پہنچایا۔
دسمبر 2022 میں گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ میں احمدی عبادت گاہ کے دو مینار مسمارکر دیے گئے تھے۔ اس واقعے پر احمدی کمیونٹی کے افراد نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اپنی زیر نگرانی یہ کام کروایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اہلکار بھی ان شرپسند عناصر کا ساتھ دیتے ہیں۔
اسی طرح اپریل 2022 میں مظفر گڑھ کے علاقے چوک سرور میں مشتعل ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب مسمار کر دیے تھے اور پولیس تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔
2019 میں سیالکوٹ کے چھتی بازار میں واقع احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہ کو مسمار کیا گیا تھا۔ تحریک لبیک اور دیگر مذہبی تنظیموں نے مل کر عبادت گاہ کو مسمار کیا تھا۔
جماعت احمدیہ کے قبرستانوں اور عبادت گاہوں کو مسلسل نقصان پہنچائے جانے کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے اور اس معاملے پر ریاست کی خاموشی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔