’عین‘ عشق ۔۔۔ ’ق‘ قلم

06:58 PM, 2 Jan, 2019

شریف اعوان
ڈاکٹرعرشیہ قاسم نے اپنے فکری عمل کے معاملے میں لکھا ہے کہ ’اس امر میں شعور کواپنی سب سے اوپر والی منزل پر لے جانا پڑتا ہے‘۔

ہم جیسے قاری کو یہ بیان کسی موسیقار کا لگا، جو تانپورے سے یہی کام لیتا ہے۔ جس کے تار دو ایک بنیادی سروں کی دنیا سجاتے ہیں۔ اسے ایک حصار فراہم کرتے ہیں۔ اس طور اگر وہ فنکار ایک دنیا سے بے تعلق ہو کر کسی اور دنیا میں پہنچ جائے، تو بڑی موسیقی تخلیق ہو جاتی ہے۔ اکثر ایسا نہیں بھی ہو تا۔ تب گانا بھی نہیں ہوتا۔ ویسے یہ بات موسیقی تک ہی کیوں رہے؟ تخلیقی دنیا کے ہر شعبے میں چاہے وہ نثر ہو یا نظم ہو، خطاطی ہو یا مصوری، فنکار کو اپنی دنیا خود سجانی ہوتی ہے۔ بقول فیض احمد فیض،

؂ جب چاہا کر لیا، کنج قفس بہاراں

کتاب کے شروع ہی میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ عرشیہ کو من کی دنیا سجانے کا فن آتا ہے۔ ان کی زندگی اور اسی رعایت سے شاعری میں ایک عنصر ہجرت کا بھی ہے، جس کا سلسلہ بقول ان کے بچپن سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ ہجرت جیسی بھی ہو، اس کا محرک کچھ بھی ہو، اپنے ساتھ آزادی ضرور لاتی ہے۔ ہماری شاعرہ کو فکر و احساس کی آزادی اور زبان کی آزاد خیالی خوب میسر ہوئی ہے۔

ہے تو و سیع دیدۂ بینا کا دائرہ
اب عین اپنے حال سے آگے کی سوچئے



اس کتاب میں لفظ عین کا استعمال بہت خوبصورت کیفیات میں ہوا ہے۔ اگر یہ ان کا تخلص نہ بھی ہوتا تومعنی آفرینی بہر طور موجود ہوتی۔ ان کے استعاروں کی اپنی دنیا ہے۔ ان کو پڑھتے ہوئے اکثر چو نکا دینے والے الفاظ اور تراکیب سے سامنا ہو جاتا ہے۔ مثلاً

نگاہ ، آواز، خو شبو، لمس، سب تھا
سماعت وجد میں تھی، رقصِ لب تھا
کہہ نہ پائے جو بات، باقی ہے
منتظر میری ذات باقی ہے

آخری مصرعے میں لفظ منتظر کو دونوں طرح سے (زیر اور زبر کے ساتھ) پڑھیے اور سر دھنیے۔

یہ شاعری انکی (تاحال) آخری ہجرت سے پہلے کی ہے۔ لیکن اس امر کو کیا کہیے کہ اس میں جاپانی ھائیکو اور تنکا کی بے سا ختگی، سادگی اور خلوص باقاعدہ ظاہر ہیں۔ کیا یہ اس روحانیت کا اشارہ ہے جسے بقول ان کے ابھی دریافت ہونا ہے۔

زمیں بدلی، زماں بدلے
سروں پر، آسماں بدلے
رکے تو، بستیاں بدلیں
چلے تو، کارواں بدلے
یقیں بدلے، ارادوں سے
حقیقت سے، گماں بدلے

ہمیں اس وقت کا خوش دلی اور تجسس کے ساتھ انتظار رہے گا، جب ان کی شاعری میں ان کے موجودہ وطن (جا پان) کے معاشرے کے رنگ، نفسیات اور تصورات اپنی جگہ پا ئیں گے۔ وہ یقیناً ایک خوبصورت کیفیت ہوگی۔ اسی طرح ہمیں ان کی آزاد شاعری کے شائع ہونے کاانتظار بھی رہے گا، جس کے کئی نمونے ہم دیکھ چکے ہیں۔ وہ اردو زبان و ادب میں ایک بڑی خبر ہوگی۔ انتظار کیا جائے۔



عرشیہ کی غزلیں بالعموم چھوٹی بحروں میں ہیں، لیکن جہاں طویل بحریں استعمال ہوئی ہیں وہاں Alliteration کی وہ صورت ہے جو کلاسیکی انگریزی یا پھر ہمارے ہاں سندھی شاعری کا خا صہ ہے۔

با ت جس بات سے تھی، بات بڑھائی، کیا تھی
اب تو یہ بھول چکی ہوں، کہ لڑائی کیا تھی
ہاں گر فتار وفا تھے، تو رضا تھی اپنی
دل نہیں مان رہا تھا، تو رہائی کیا تھی

یہ بھی خوبصورت بات ہے کہ انکے ہاں بنیادی اکائی شعر نہیں بلکہ ’مصرعہ‘ ہے۔ کبھی کبھی دوسرا مصرعہ غیر مطابق بھی لگتا ہے، لیکن تب تک ساتھ کا مصرعہ اپنا جادو چلا چکا ہوتا ہے۔ عرشیہ کی شاعری کلا سیکیت اور رومانویت کا مشر میل ہے۔

درد گرچہ یہ میرا ذاتی ہے
اسکی تاثیر کا ئنا تی ہے
تیری غدار مسکرا ہٹ دیکھ
عین افواہ کیا اڑاتی ہے

قرائن صا ف بتاتے ہیں ہماری شاعرہ نے عین اپنی ذات کی دریافت کا ایک متبرک تہیہ کر رکھا ہے۔

خرد کی آخری حد سے، جنوں کے پہلے زینے تک
محبت لے کے آئی ہے، محبت کے قرینے تک
فسونِ عشق ہے، قطرے میں بھی دجلہ دکھائی دے
یہ زہرہجر کو، ز م زم بنا دیتا ہے پینے تک

یہ کیفیات کی شاعری ہے۔ ان کی غزل میں نظم کا اسلوب دریافت کرنا ایک خوش کن مشاہدہ ہوتا ہے۔

اب کچھ توجہ طلب مسائل۔ ان کو بات کہنے کی جلدی ہے، جو ہر اس کہنے والے کا مسئلہ ہے جس پر چیزیں القا ہوتی ہیں۔ اس کتاب کا بڑامسئلہ یہ ہے کہ اس کی Editing نہیں ہوئی۔ کتابت کی غلطیاں بھی پڑھنے والے کو بدمزہ کرنے کو موجود ہیں۔ پروف ریڈنگ یاغلط گیری اشد ضروری ہے، چاہے نثر ہو، شاعری ہو یا خطاطی۔ حد یہ ہے کہ مصوری میں بھی۔ کون سا رنگ آگے بڑھایا جائے گا یا کس میں کتنی آمیزش کی جائے گی۔ ہماری کلاسیکی موسیقی میں تو یہ بات کمال کو پہنچی ہے۔ کس سر کو ’وادی‘ لے کر چلیں گے، کون سا اس کے بعد آئے گا اور کون سا سر بالکل بھی نہیں آئے گا۔ اور یہ آخری اصول اہم ترین ہوگا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی تخلیق کار اپنا ’غلط گیر‘ خود نہیں ہو سکتا۔ شاعری کا ہر مصرعہ بلکہ ہر لفظ شاعر کے بچوں کی طر ح ہوتا ہے۔ وہ بھلا کون سی تفریق کر پا ئے گا؟ یہ لازماً کوئی دوسرا یا تیسرا قابل اعتما د اور قابل اعتبار شخص ہوگا جسے متعلقہ کاوش سے ہمدردی بھی ہو اور وہ اس کی ہئیت ترکیبی کا جانکا ر بھی ہو۔ اردو زبان میں غالباً صرف دو بڑے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا کلام خود دیکھا۔ وہ ہیں مر زا اسدللہ خان غالب اور مرحوم مشتا ق احمد یو سفی۔ وہ یہ کام کیسے کر پائے؟ اسکی تفصیل طولانی ہے۔ با قی تمام لکھنے والے یا کہنے والے دشمن دار تھے یا پھر دوست دار۔ سو ان کے دوستوں اور دشمنوں نے انکے کلام کے ساتھ حسب توفیق اور حسب ذوق کیا، جو کیا۔ اللہ بس، با قی ہوس۔

کتاب کے شروع میں عرشیہ کو بڑے اہم اور ضروری مشورے دیے گئے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بزرگی کے اس مقام پر نہیں پاتے، تاہم یہ گذارش ضرور کریں گے کہ وہ ان "نامی گرامی" سینیئر شاعروں سے دور رہیں، جن کا ذکر انہوں نے ابتدائی صفحات میں خود بھی کیا ہے۔ رب العالمین آپ کواس قبیل کی جملہ آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔
مزیدخبریں