چیئرمین سے بات چیت کے ذکر پر سرکاری ٹی وی نے وزیر اعظم کی تقریر سنسر کر دی

05:09 PM, 2 Jan, 2020

نیا دور
وزیراعظم عمران خان سول سرونٹس سے اپنے خطاب کے دوران جب یہ بتا رہے تھے کہ نیب کو کن معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور کس طرح انھوں نے نیب چیئرمین کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تو اسی دوران سرکاری ٹی وی کی اسکرین بلیک ہو گئی اور وزیراعظم کے خطاب کی آواز بھی آنا بند ہو گئی۔ اس کے بعد باقی ماندہ تقریر نہیں دکھائی گئی۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران  کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس میں ترمیم مشکل فیصلہ تھا کیونکہ احتساب میرا مشن تھا۔


سول سرونٹس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپنی پارٹی کو ساتھ لے کر چلنا تھا، نیب کے خوف سے ترقیاتی منصوبوں میں بیورو کریسی کا کردار محدود ہو کر رہ گیا تھا، بیورو کریسی کو ضابطے کی غلطیوں پر نیب کے شکنجے سے بچانا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیورو کریسی میں خوف تھا کہ ضابطے کی غلطی پر کوئی بھی پکڑا جا سکتا ہے، اس بات سے بیورو کریسی کو تحفظ فراہم کرنا تھا، نیب ترمیمی آرڈیننس کا تفصیلی جائزہ لیے بغیر واویلا مچایا گیا، بزنس معاملات میں نیب کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ملک میں پیسہ اس وقت آئے گا جب صنعتیں چلیں گی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کا مشکل فیصلہ کاروبار میں آسانی اور بیورو کریسی کو ضابطہ کی غلطیوں پر نیب کی پکڑ سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے، اس حوالے سے اتفاق رائے اہم ہے، معاشی استحکام کیلئے گورننس کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروبار نیب کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے تفصیلی فیصلے کا جائزہ لیے بغیر واویلا مچایا گیا ہے، اس حوالے سے اتفاق رائے اہم ہے کیونکہ جمہوریت میں سیاسی مشاورت اور اتفاق رائے سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک مشکل حالات سے گزرا ہے، معیشت کے حوالے سے 2019ء ایک مشکل سال تھا کیونکہ قرضوں کی وجہ سے بڑے چیلنجز درپیش رہے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، کرنسی پر دباﺅ اور قیمتوں میں اضافے جیسے مسائل کا سامنا رہا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، 2008ءسے 2018ءتک دس سال کے عرصے میں ملک پر 24 ہزار ارب روپے کے قرضے چڑھے ہیں، ٹیکس محصولات سے ہونے والی ملکی آمدن کا آدھا حصہ ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں چلا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے حل کے لیے ملک میں سرمائے میں بڑھوتری کی ضرورت ہے، یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب کاروباری سرگرمیاں فروغ پائیں گی، صنعتیں چلیں گی اور زرعی پیداوار بڑھے گی، اس مقصد کے لیے رکاوٹیں دور کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ معاشی استحکام کیلئے گورننس کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، نیب آرڈیننس میں ترمیم ان ہی کوششوں کا حصہ ہے، کاروباری معاملات میں نیب کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اس حوالے سے چیئرمین نیب کو پیغام بھی بھجوایا ہے کیونکہ ہمیں ملکی مسائل کے حل کے لیے کاروبار اور گورننس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنی ہوں گی۔

نیب ترمیمی آرڈیننس

نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا جب کہ ترمیمی آرڈیننس سے ٹیکس اور اسٹاک ایکسچینج سے متعلق معاملات میں بھی نیب کا دائرہ اختیار ختم ہوجائے گا۔

وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق نیب حکومتی منصوبوں اور اسکیموں میں بے ضابطگی پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا، تاہم کسی پبلک آفس ہولڈر نے بے ضابطگی کےنتیجے میں مالی فائدہ اٹھایا تو نیب کارروائی کر سکتا ہے۔

وفاقی و صوبائی ٹیکس اور لیویز کے زیر التوا مقدمات بھی متعقلہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔

آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا اور اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا مگر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔

اس کے علاوہ نیب 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کر سکے گا۔

 
مزیدخبریں