نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے کامران یوسف نے کہا کہ اگر عمران خان کی حسین حقانی کے بارے میں بات کو سچ مان لیا جائے تو پھر حقانی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف کیا سب ڈرامہ تھا؟ یہ سب عمران خان کی اپنی سوچ کی اختراع ہے کیونکہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ عمران خان کو چاہئیے تھا کہ جب باجوہ صاحب حاضر سروس تھے اس دوران اس طرح کی باتیں کرتے۔ ان کو چاہئیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت باجوہ صاحب کے خلاف مزاحمت کرتے، مگر اس وقت وہ ان کی تعریفیں کرتے تھے۔
کامران یوسف نے کہا کہ فوج کے جونیئر رینکس میں عمران خان کی حمایت موجود ہے مگر سینیئر افسران میں ان کی حمایت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی افسران میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ عمران خان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کو لایا گیا جو ان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے ان سیاسی جماعتوں کو چور بنا کر پیش کیا اور پھر حکومت بھی انہی چوروں کے حوالے کر دی۔
تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے کہا کہ حسین حقانی کی دانشوارانہ خدمات سے کوئی انکار نہیں، وہ ایک مستند لکھاری سمجھے جاتے ہیں۔ عمران خان سے اصل سوال یہ کیا جانا چاہئیے کہ آڈیو لیکس اصلی ہیں یا نہیں، مگر وہ صرف اپنے من پسند صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیا ہاؤسز کو بائیکاٹ کرنا چاہئیے جب تک عمران خان بلا تفریق تمام صحافیوں کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے طرز تکلم سے ادارے کے افراد خوش نہیں ہیں۔ عمران خان کے پراپیگنڈے سے ادارے کی ساکھ کو فرق پڑا ہے، عمران خان کا بیانیہ خطرناک ہے اور اس کو ماننے والے بہت لوگ ہیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ صرف وہ ایماندار ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو صرف ان کی حمایت کرنی چاہئیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق جمہوریت کی کال دینی چاہئیے، عمران خان کو بھی بلائیں اور آرمی کی لیڈرشپ کو بھی بلائیں، اس میثاق میں آگے چلنے کے قواعد و ضوابط طے کئے جانے چاہئیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عمران خان سے یہ سوال پوچھنا چاہئیے کہ رابرٹ گرینیر کی رپورٹ میں حسین حقانی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ افتخار درانی نے یہ معاہدہ کیا تھا جو اب بھی ان کی پارٹی کا حصہ ہیں، وہ ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ حسین حقانی کی ریسرچ کے بدلے ان کو جو رقم ملی ہے، وہ لینا ان کا حق ہے۔ جب عمران خان کی حکومت تھی تو انہوں نے یہ معاملہ سلامتی کمیٹی میں کیوں نہیں اٹھایا؟
بھٹو صاحب کو جب پھانسی دی گئی تھی تووہ اس وقت فوج میں سب سے محبوب لیڈر تھے، مگر پھر بھی ضیاء الحق کی آمریت 11 سال تک چلتی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے اندراوپر سے نیچے کی طرف فیصلے ہوتے ہیں، سارے فیصلے اوپر والی لیڈرشپ کرتی ہے۔ لہٰذا فوج کے اندر عمران خان کی حمایت والے سروے محض باتیں ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔