افتخارالدین مرزا نے سوچ سمجھ کر عدلیہ کے خلاف بولا، اٹارنی جنرل کا عدالت میں بیان

11:22 AM, 2 Jul, 2020

اسد علی طور
آج طویل انتظار اور چھ مقدمات کی سماعت کے بعد 12 بج کر 22 منٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکیوں کے سوموٹو نوٹس کی سماعت کی آواز لگی۔ آواز لگی تو ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا اور اٹارنی جنرل فوراً روسٹرم کی طرف بڑھے جب کہ دھمکیاں دینے والے مولوی افتخارالدین مرزا کی خاتون وکیل بھی روسٹرم پر آ گئیں۔ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا وفاق کے نمائندے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے دو قدم پیچھے باادب کھڑے ہو گئے۔ دو رکنی بینچ نے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سماعت شروع کی۔ اس بینچ میں چیف جسٹس کے ساتھ دوسرے رکن جسٹس اعجازالاحسن ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پہلے آٹھ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن کی موجودگی پر اعتراض کی وجہ سے وہ لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا اور پھر دس رکنی فل کورٹ تشکیل پائی تھی۔

سماعت کا آغاز کرتے ہوئے جسٹس اعجازالاحسن نے دستاویزات پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا کہ ایف آئی اے نے تو رپورٹ فائل کر دی ہے لیکن افتخار الدین مرزا کدھر ہیں؟ چیف جسٹس نے دھمکیاں دینے والے مولوی افتخار الدین مرزا کی خاتون وکیل سے دریافت کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں؟ خاتون وکیل نے جواب دیا کہ وہ غیر مشروط معافی نامہ جمع کروا چکی ہیں، افتخارالدین مرزا کو معافی دے دی جائے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے خاتون وکیل سے سوال پوچھا کہ آپ نے وہ زبان سنی ہے جو وڈیو میں استعمال کی گئی؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں عدلیہ کے ادارے کے بارے میں ایسی زبان استعمال کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ خاتون وکیل نے دوبارہ عدالت سے استدعا کی کہ سر ہم نے معافی مانگی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے جواب دیا کہ ایسے بہت سے مقدمات ہیں جس میں ہم نے معافی قبول نہیں کی جو صرف سزا کے خوف سے مانگی گئی ہو۔ خاتون وکیل نے معذرت خواہانہ انداز میں درخواست کی کہ جیسے ہی ان کو معلوم ہوا، وہ غیر مشروط طور پر معافی مانگنے خود عدالت آ گئے تھے لیکن یہ لوگ اٹھا کر لے گئے کمرہ عدالت سے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ افتخار الدین مرزا گرفتار کب ہوئے؟ خاتون وکیل نے جواب دیا کہ 29 جون کو۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک فوجداری جرم بنتا ہے جس پر معافی نہیں بنتی۔ خاتون وکیل کا کہنا تھا کہ سر ویڈیو بننے کا مولوی صاحب کو نہیں معلوم تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ایف آئی کی رپورٹ ہاتھ میں اٹھا کر پڑھتے ہوئے خاتون وکیل کو بتایا کہ افتخار الدین مرزا نے ایف آئی کو بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے سات نمازیوں کے سامنے یہ گفتگو کی جس کی ویڈیو ریکارڈ ہوئی لیکن وہ یوٹیوب پر ان کی مرضی کے بغیر چڑھا دی گئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے آبزرویشن دی کہ معافی تو تب ہوتی ہے جب آپ جرم کا اعتراف کر لیں لیکن وہ تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے پتہ ہی نہیں، تو معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے اس موقع پر دھمکیاں دینے والے مولوی افتخارالدین مرزا کے بیان حلفی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ یہ کس قسم کا بیان حلفی ہے جو نہ تو اشٹام پیپر پر ہے اور نہ ہی مہر لگی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے مزید سوال اٹھایا کہ یہ اوتھ کمشنر کے سامنے کس نے شناخت کی کہ بیان حلفی دینے والا دراصل افتخارالدین مرزا ہی ہے؟

بینچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد کا خاتون وکیل کو کہنا تھا کہ آپ اس مقدمہ کو بہت آسان مت لیں۔ ہم افتخار الدین مرزا کو ابھی توہین عدالت کی سزا سنا کر جیل بھجوا سکتے ہیں۔ دھمکیاں دینے والے مولوی افتخار الدین مرزا کی خاتون وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ سر افتخار الدین مرزا دل کے مریض ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے جوابی ریمارکس دیے کہ دل کے مریض ہیں تو زبان پر کنٹرول کرتے نا۔ جب سب کچھ کہہ رہے تھے تو دل پر اثر نہیں پڑا؟

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ دیکھیں وڈیو میں کیا زبان استعمال ہوئی۔ خاتون وکیل نے منت بھرے لہجے میں درخواست کی کہ سر وہ بچے نے ویڈیو بنا لی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے خاتون وکیل کو ٹوک کر ریمارکس دیے کہ 15 سال کا بچہ وڈیو بناتا رہا اور آپ کا یوٹیوب چینل ہے۔ خاتون وکیل نے ججز سے ایک بار پھر رحم کی درخواست کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ اس یوٹیوب چینل سے کماتے ہیں۔ خاتون وکیل نے جواب دیا کہ سر غریب مولوی ہے اتنی آمدن نہیں ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے معافی نامے میں سے پڑھا کہ آپ نے لکھا ہے وہ نجی گفتگو تھی۔ خاتون وکیل نے جواب دیا کہ سر اللہ بھی معاف کر دیتا ہے انسان کو اور یہاں تو افتخارالدین مرزا پر کی دفعہ 7 ATA (یعنی انسداد دہشتگردی قانون کا سیکشن 7) بھی لگ رہی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ وہ جب 7 ATA لگے گی تو آپ عدالت میں دفاع کر لینا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کبھی کہتی ہیں کہ پتہ نہیں تھا وڈیو بن گئی، کبھی کہتی ہیں 15 سالہ بچے نے وڈیو بنا لی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے آبزرویشن دی کہ وڈیو پروفیشنل انداز میں بنائی گئی اور پھر اس میں اہم شخصیات کی تصاویر لگائی گئیں۔

دھمکیاں دینے والے مولوی افتخارالدین مرزا کی خاتون وکیل نے جواز دیا کہ سر آج کل کے بچے بہت تیز ہیں، آپ معاف کر دیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ بہت غلط مثال قائم کرنے کی درخواست کر رہی ہیں کہ وڈیو بناؤ، اداروں کو برا بھلا کہو اور اس کو مشہور کر کے معافی مانگ لو۔ اس دوران سینیئر صحافی اور اینکر حامد میر کے وکیل جہانگیر جدون نے عدالت سے بات کرنے کی اجازت چاہی تو چیف جسٹس نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں اور کس لئے بات کرنا چاہتے؟ جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ وہ سینیئر صحافیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ ایسے نہیں کریں وکیل صاحب، سائیڈ پر جا کر بیٹھ جائیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن میں ایک منٹ تک مشاورت ہوئی جس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے استفسار کیا کہ اعتراف تو کر لیا ہے، اب اٹارنی جنرل صاحب عدالت کیا کرے؟َ وفاق کے نمائندے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اس موقع پر انتہائی دلچسپ مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ یہ جو زبان استعمال کی گئی یہ کوئی غیر ارادی طور پر نہیں کہا گیا یا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں یہ فیصلہ سمجھنے میں غلطی ہوئی تو اچانک منہ سے نکل گیا بلکہ یہ بہت سوچ سمجھ کر ریکارڈ کروایا گیا بیان ہے اور اس میں عدلیہ کے ججز بالمعوم جب کہ بالخصوص آپ کی عدالت کے ایک جج کو نشانہ بنایا گیا جب کہ اس کے علاوہ بھی ایک سابق وزیراعظم، صدر اور صحافیوں کے خلاف بھی سنگین گفتگو کی گئی۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کو آگاہ کیا کہ دھمکیاں دینے والے مولوی افتخار الدین مرزا نے ایف آئی اے کے زیر حراست آج صبح آگاہ کیا کہ ان کو سینے میں تکلیف ہے جس پر ان کو پمز اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی ای سی جی کلیئر آئی ہے۔

پاس موجود خاتون وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ افتخارالدین مرزا حراست میں دباؤ کا شکار ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال پوچھا کہ جب وہ یہ گل افشانی کر رہے تھے، تب دباؤ کا شکار نہیں ہوئے؟

اس موقع پر صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک ایڈووکیٹ کے نوجوان لا ایسوسی ایٹ کبیر ہاشمی روسٹرم کے قریب آئے اور انہوں نے دو رکنی بینچ سے استدعا کی کہ وہ مسز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے عدالت کے نام خط لائے ہیں جو وہ چیف جسٹس کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار نے برہمی سے کہا آپ کون ہیں؟ کیا آپ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں؟ چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھے جسٹس اعجازالاحسن نے ہلکے ہلکے مسکراتے ہوئے اور اپنی دستاویزات کی طرف دیکھتے ہوئے ہلکی سی آواز میں کہا کہ ایسے تو نہیں ہوتا لیکن ان کی آواز چیف جسٹس گلزار احمد کی بلند آواز میں دب گئی۔ کبیر ہاشمی نے دوبارہ عدالت سے استدعا کی کہ وہ یہ خط عدالتی عملے کو دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ وہ یہ دستاویز پیٹیشن کے طور پر جمع کروائیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت 15 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے ایف آئی اے کو افتخار الدین مرزا کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

آج کی سماعت میں ایک بات بالخصوص نوٹ کرنے والی تھی کہ بظاہر ایسا لگ رہا تھا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس سو موٹو کو صرف افتخار الدین مرزا کی ذات تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور افتخار الدین مرزا کے پشت پر اگر کوئی عوامل متحرک ہیں تو چیف جسٹس ان کی تحقیقات تک شاید نہیں جانا چاہتے تھے۔
مزیدخبریں