ان کی لاہور کے ساتھ بہت یادیں وابستہ ہیں جہاں پر ان کے دادا کا لارنس روڈ پر گھر تھا-ان کے والد فوج میں ڈاکڑ تھے۔ وہ رومیلا سے مخطوطات پڑھواتے تھے۔ جس کی وجہ سے رومیلا کی تاریخ میں دلچسپی پیدا ہوئی-
انہوں نے Third Chakravarity Memorial Lecture: To question and not to question: This is the question میں کہا کہ استاد حکومت وقت سے سوال کرنے سے شرماتے ہیں۔ انہیں سرکار سےبہت سوال کرنے چاہیں-
جب وہ جوان تھیں تو ان کے والد نے ان سے پوچھا کہ 'تمہیں جہیز کے لئے پیسے چاہیں یا لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگری کے لئے'۔ رومیلا نے جہیز پر ڈگری کو ترجیح دی۔ اور مڑ کرکبھی نہیں دیکھا۔
گو ان کی تحریروں میں نسوانیت نظر نہیں آتی مگر وہ اپنے آپ کو Feministکہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیمینسٹ مورخین کی لکھی ہوئی تاریخ کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے۔
میری ملاقات سے کچھ پہلےان کا اپنی نہایت ہی ذاتی زندگی کے بارے میں بی بی سی پر انڑویو چھپا تھا [گو بعد میں وہ ہٹا لیا گیا]-جب اس کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں کوئی سوال نہ کریں۔
وہ بر صغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے بارے میں 'ہند/سندھ تھیوری کو نہیں مانتیں'۔ ان کی رائے میں کروکشیتر کے مقام پر مہا بھارتہ جنگ ہونے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔
تھاپر نے 'سومنات' پر بھی کتاب لکھی -سومنات [بت شکنی اور مندر گرانے] کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ فساد برطانوی سامراج نے ہندو /مسلمان دمشنی پیدا کرنے کے لئے کھڑا کیا- محمود غزنوی بھی دوسرے حملہ آوروں کی طرح تھا بلکہ اس نے مندر بنوانے میں بھی مدد کی۔ انہوں نے یہ کتاب فارسی ماخذون کی مدد سی لکھی۔
انہوں نے کالی داس کے 'شکنتلا' ڈرامہ پر بھی لکھا۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ 'ادب کی تاریخ کے لئے افادیت ' کا رشتہ ڈھونڈ رہی تھیں-
بابری مسجد کے معاملہ میں ان کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جن کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد، رام مندر کو گرا کر بنائی گئی تھی-
تھاپر کا شمار جواہر لال یونیورسٹی میں Modern History Department at Jawahar Lal University کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ جہاں انہوں نے بہت ساری دیو مالاؤں [تاریخی مغالتوں] کو پاش پاش کیا، کئی نسلوں کو پڑھایا اور متاثر کیا ہے-
Somnath: The Many Voices of History لکھنے پر امریکہ میں رہنے والے ہندوستانی [ہندو] ان سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے تھاپر کی Smithsonian Institute Washington میں تعیناتی کی مخالفت کی- تھاپر نے انڈیا کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ پد ما شری دو دفعہ لینے سے انکار کیا.
اپنے ایک خط میں انہوں نے صدر جمہور یہ ہند کو لکھا کہ 'میں نے کچھ سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں صرف تعلیمی اداروں سے ایوارڈ لوں گی یا ان اداروں سے جن کا تعلق میرے علمی کام سے ہو گا۔ ریاستی ایوارڈ قبول نہیں کروں گی۔ '
آپ ان کی سیکو لرازم سے کمٹمنٹ کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ 90 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود وہ دہلی کے شاہین باغ میں مودی حکومت کی طرف سے شہریت قانون
Citizen Amendment Act (CAA) کے خلاف لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں لاٹھی پکڑ کر ایک شاگرد کی مدد سے اظہار یک جہتی کرنے پہنچ گئیں- باوقار، مورخ، عالم اور عاجز تھاپر اپنے علمی کام میں پوری طرح مگن ہیں گو ان کی عمر نوے سال کے قریب ہے مگر ان کی یاداشت آج بھی تیز ہے۔ مذہبی فرقہ واریت سے ان کو سخت نفرت ہے-وہ اپنا وقت لیکچر دینے اور پڑھنے میں گذارتی ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا 'میں سنجیدگی سے امید کرتی ہوں کہ آخر کار یہ ہونا ہی ہے۔ جب کہ ساراخطہ ثقافتی اور تاریخی طور پر اتنا جڑا ہوا ہے، ہم ا یک ہیں، یہ ہو گا۔ میں نہیں دیکھتی کہ یہ نفرت ہمیشہ رہے گی'-
مہارانی باغ ، دہلی میں ان کا گھر اور ڈرائینگ روم کتابوں سے بھرا پڑا ہے۔
ان سے بات چیت کا خلاصہ پیش خدمت ہے-
سوال: سیکولر انڈیا، ہندو انڈیا کیوں بن رہا ہے؟
جواب: یہ ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب سیکولر نیشنل ازم تھا۔ جو کہ سامراج دشمن تھا۔ لیکن اس وقت دو اور چھوٹی تحریکیں بھی تھیں، مسلم لیگ جو مسلم مذہبی نیشنل ازم پر زور دیتی تھی اور ہندو مہا سبھا جس کا ہندو مذہبی نیشنل ازم پر زور تھا۔
ہوا یہ کہ مسلم نیشنل ازم پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ سو ہندو نیشنلزم کے ساتھ وابستہ لوگ بھی ایسی ہندو سیاسی ریاست انڈیا کو بنانا چاہتے تھے۔ یہ اس لئے نہیں ہو سکا کیوں کہ اس وقت کے انڈیا میں کافی لوگ سیکولر قومی تحریک کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اس لئے انڈیا سیکولر ریاست رہا۔
ہوا یہ کہ پچھلی چند دہائیوں میں جو باتیں ہوئیں ان سے لوگوں میں مایوسی آ گئی اور وہ پچھلی سرکار سے دور ہوتے گئے۔ ان قدروں سے دور ہوتے گئے، اب نئی قدریں بنانا آساں نہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ جس سرکار نے ترقی کے نام پرووٹ لیے تھے اور اقتدار میں آئی، اب لگتا ہے ان کا کوئی اورایجنڈہ ہے۔
کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست اور معاشرے کو 'ہندو' بنا دیا جائے اور اب وہ کھل کر بات کر رہے ہیں-
میرے خیال میں نیو لبرل ازم اور مارکیٹ اکانومی کی وجہ سے مڈل کلاس میں اضافہ ہوا ہے۔ پر اس نے مقابلہ کا زبردست مسئلہ پیدا کردیا ہے جس سے لوگ غیر محفوط ہو رہے ہیں۔ جب لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ سجھتے ہیں تو وہ آسان حل کی طرف جاتے ہیں۔ ہندو شہری کا نظریہ، آسان حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ ان کو اپیل کرتا ہے-
سوال: کیا آپ نہیں سمجھتی کہ نیو لبرل ازم، بزنس اور مذہب کاا اشتراک عوام دشمن اور زہر قاتل ہو گا؟
جواب: ہاں یہ بہت برا اشتراک ہو گا- کیوں کہ نیو لبرل ازم کے معنی ہیں ہر چیزکو انفرادی قدم پر چھوڑ دینا خواہ یہ سرمایہ کاری ہو، یا پیسے بنانے کے لئے کوئی اور طریقہ۔ یہ یقیننا تضاد ہے کہ نظریاتی طور پر ایک متحرک، ہندو ریاست بنانے کے لئے اپنےآپ کو بہت ہی منظم کرنا پڑتا ہے۔ جوایسی ریاست کی ضرورت بنتی ہے اور جواقتصادیات سے ٹکراتی ہے۔ میرے خیال میں ایک تضاد ابھر آئے گا۔
سوال: ایک ایسا ملک جس کا سب سے بنیادی دعویٰ تھا کہ وہ سیکولر ہے اس میں سیکرلر قوت کیوں کمزور ہو گئی ہے؟
جواب: میرے خیال میں جو لوگ سیکولر تھے ان کا خیال تھا کہ اب سیکولر ازم آگیا ہے اور ان کا پختہ یقین تھا کہ اب یہ ہمیشہ رہے گا۔ اس نظریہ پر ان کا بہت انحصار تھا کہ ریاست سیکولرازم کا دفاع کرے گی- انہوں نے عوام میں کافی کام نہیں کیا کہ وہ سمجھ سکیں کہ سیکولر معاشرہ اصل میں کیا ہوتا ہے ، اس کا مطلب کیا ہے۔
یہاں ہندوستان میں ہم سیکولر ازم کی کئی تعریفیں کرتے ہیں جو میرے خیال میں کافی نہیں ہے۔ ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ سب مذاہب کے ساتھ رہنا، بقائے باہمی۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے آپ بقائے باہمی کر سکتے ہیں لیکن جب تک مذاہب میں سماجی برابری نہ ہویہ سیکولر ازم نہیں ہے۔ جب تک سارے مذاہب میں سماجی برابری اور بقائے باہمی نہ ہو-مگر کچھ مذاہب کو زیادہ اہمیت، فوقیت اور جگہ دی گئی-۔ اس جگہ ہماری تعریف مکمل نہیں-
سوال: آپ کے خیال میں ایسی کوئی تحریک یا لوگ ہیں جو اس طرح سوچتے ہیں ؟
جواب: ایسے لوگ ہیں جو اس طرح سوچتے ہیں مگر کوئی بڑی تحریک نہیں ہے، کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔
سوال: یہ تو بہت ہی دکھ کی بات ہے کیوں کہ پاکستان میں لوگ خاص کر سیکولر اور لبرل انڈیا کی طرف دیکھتے ہیں ؟
جواب: ہاں ہندو بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ شائد مذہبی لحاظ سے تضاد ہو۔ پر سیاسی لحاظ سے نہیں۔ یہ مایوس کن ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جب یہ ایک خاص سطح سے آگے بڑھ جاتی ہے تو اس کی ضرور مزاہمت ہوتی ہے - سو ہمیں امید کرنی چاہئے کہ ہم اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں –ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ان کی مخالفت کی ہے-
سوال: مجھے اگر صحیح یاد ہے کہ آپ نے کچھ اس طرح کہا تھا کہ لفظ ہندو بعد میں گھڑا گیا پہلے یہ برہمن تھا۔۔۔۔۔؟
جواب: نہیں یہ برہمن نہیں تھا۔ کوئی بھی اصطلاح اس سارے مذہبی فرقہ کے لئے استعمال نہیں ہوتی تھی - لفظ ہندو پہلے پہل ان لوگوں کے لئے گھڑا گیا تھا جو مغربی ایشیا انڈس {دریائے سندھ } کے پار رہتے تھے- لفظ الہند کا لسانی طور پر تعلق دراصل ہندو/سندھو کے ساتھ ہے۔ شروع میں اس کا مطلب تھا جو سندھ کے پار رہتا ہے۔ اس وقت یہ جغرافیائی اصطلاح تھی پھر آہستہ آہستہ جب ضرورت محسوس ہوئی کہ ہندوں کو، مسلمانوں یا عیسائیوں سے الگ کیا جائے تو یہ ان کے لئے استعمال ہونی شروع ہوئی، جو نہ مسلمان اور نہ عیسائی ہیں۔ یہ 14/15 صدی میں مذہب کے معنوں میں استعمال ہونا شروع ہوئی- پہلے یہ جغرافیائی اصطلاح تھی۔
سوال: آپ نے کہا کہ بدھ پہلا قوم پرست تھا؟
جواب: میں نے یہ نہیں کہا تھا- کہ بدھ پہلا قوم پرست تھا- میں نے کہا تھا کہ ان لوگوں کی نمائندگی کرتا تھا جنہوں نے وید، براہمن ازم کو چیلنج کیا تھا- انہوں نے اسے ایک الہامی کتاب کے طور پر چیلینج کیا تھا- انہوں نے روح اور دوسرے خیالات کو چیلینج کیا تھا-لیکن صرف بدھ ہی عقلیت پسند، ریشنلسٹ نہیں تھا-صرف وہی نہیں اور بھی تھے -
سوال: بدھ ازم ہند وستان میں کیوں مٹ گیا اور باقی دنیا میں پھیل گیا؟
جواب: یہ ایک وقت میں بہت اہم تھا- یہ غالب تھا، پر پھر برہمن ازم کے مقابلہ میں یہ زوال پذیر ہو گیا- اس کو مشرقی ہندوستان کی طرف دھکیل دیا گیا- وہاں سے اس کا تعلق تبت کے ساتھ پیدا ہو گیا اور پھر یہ جنوب مشرقی ایشیا میں پھیل گیا-ایک شاخ گندھارا، شمال مغربی ہندوستان سے سنٹرل ایشیا اور وہاں سے چین چلا گیا، پھِیل گیا-
سوال: جب دایئں بازو کی ہندو قوتوں نے اپنے آپ کو کھڑا کرنے کی کوشش کی تو سیکولر مورخوں نے ان کا مقابلہ کیا-موجودہ صورت حال میں ایسی کوئی کوشش یا مقابلہ نظر نہیں آتا- آپ نے اپنے لیکچر میں مورخوں کو کہا کہ اس تاریخی ڈویلپمنٹ، ترقی کو چیلنج کریں-کیا اس وقت مورخوں کو متحرک کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؟
جواب: لیکچر میں میں نے یہ دلیل دی تھی کہ لوگوں کو بولنا چاہئے ، سوال کرنا چاہئے، جہاں وہ ریاست اور معاشرہ کے متعلق اقدامات سے اختلاف کررہے ہوں- مجھے اس بات کی تشویش ہے کہ کافی لوگ بول نہیں رہے ہیں-
میں یہ بات بتانا چاہوں گی کہ مجھے لفظ 'متحرک' پر اعتراض ہے جو آپ نے ابھی استعمال کیا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ پچھلی آدھی صدی میں انہیں متحرک کیا گیا تھا-
ہم سیکولر مورخ تھے اور ہمارا ردعمل سیکولر تاریخ سے آتا تھا۔ جو کہ ہم لکھ رہے تھے۔ آپ مورخوں کو متحرک نہییں کر سکتے۔ مورخوں کو خود سوچنا چاہئے کہ وہ تاریخ کی کیسے تشریح کرتے ہیں۔ ہر مورخ کو قائل کرنا ہوگا- جس قسم کی وہ تاریخ لکھ رہے ہیں اور تشریح کر رہے ہیں- تاریخی مسائل کو سمجھنے کی کوشش ہے جس مسئلہ کا وہ مطالعہ کر رہے ہیں-
میں مذہبی نقطہ نظر کے مقابلہ میں بطور سیکولر مورخ، سیکولر نقطہ نظر کی حمائت کروں گی- مگر ہم بطور مورخ متحرک نہیں کئے جاسکتے-ان کو خود اپنے جواب ڈھونڈنے پڑیں گے-
اگر وہ جو تاریخ لکھ رہے ہیں اس کی سچائی اور صحت کا سوال نہیں پوچھیں گے تو پھر سوائے تنقید کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ تاریخ تنقید کی شہادت پر مبنی نہیں ہے ، سارے ممکن مواخذ اور دوسری وجوہات-
سوال: درسی کتب علم منتقل کرنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے -1970/1980 میں آپ نے جو درسی کتابیں لکھی ان میں آپ نے سیکولر شناخت کا درس دیا- دائیں بازو کی طرف سے اب درسی کتب میں تبدیلی کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے؟
جواب: جس چیز کو ہمیں سمجھنا چاہئے وہ یہ کہ معاشرہ کی مختلف شناختیں ہوتی ہیں-جس کو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ معاشرہ کی مختلف شناختیں ہیں اور ہر ایک کی اپنی تاریخ ہے۔ مورخ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کو شامل کریں اور اس کو چھوڑ دیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مورخ ان بہت ساری شناختوں کو آپس میں کیسے پروتا ہے- اس سلسلہ میں شناخت کے مسئلہ کو دوبارہ دیکھنا پڑے گا- شناخت سے کیا مطلب ہے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ شناخت مختلف تاریخی حالات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
خواہ ہم ایک شناخت کی بات کریں۔ ہمیں اس میں احتیاط سے تعریف کرنی ہو گی۔ کیوں کہ یہ شناخت تبدیل ہو جاتی ہے -
مثال کے طور پر ہمارا پاکستانی شناخت سے کیا مطلب ہے ، انڈین یا سری لنکن شناخت سے کیا ہے۔ یہ شناختیں کیا ہیں سواس تحقیق کا تعلق نیشن سٹیٹ سے ہے۔ ہم نے یہ بحث نہیں کی، ہم نے بس اس کو مان لیا-بحث میں ثقافت، مذہب، زبان ہر وہ چیز جو معاشرہ ،گروہ بنانے میں شامل ہیں تو پھر شہری- تاریخی نقطہ نظر سے ہمیں ان کو زیادہ احتیاط کے ساتھ دیکھنا ہو گا جوہمارے پاس ہیں اور مختلف طورپر، سطح پر، پس نظر سے۔
سوال: تاریخ عورتوں اور دلت کے نقطہ نظر سے لکھی جارہی ہے اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: نسانی تاریخ بہت ضروری ہے کیوں کہ وہ سوالات جو نسانی مورخ اٹھا رہی ہیں ان کا جائزہ لئے بغیر سماجی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔ آپ ان کے ساتھ اختلاف یا اتفاق کر سکتے ہیں جو ان کا نقطہ نظر ہے یا ان کے جواب سے۔ اسی طرح ، دلت تاریخ میں ان کے نقطہ نظر پر سوال اٹھا ئے اور پوچھنے چاہیئں - پھرآخر کار اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کو سماجی تاریخ کے ساتھ کس طرح جوڑا جائے۔ آپ مورخوں کو تقسیم کر سکتے ہیں-
کچھ مورخ مارکسسٹ تھے/ ہیں اور کچھ غیر مارکسی ہیں- بہت طویل، لمبی بحثیں ہوتی تھیں - مثال کے طور پر کیا انڈیا میں مغرب کی طرز کی جاگیردار، فیوڈل سوسائٹی، معاشرہ ہے-اگر نہیں ہے تو کس طرح اس سے مختلف ہے –ان بحثوں نے ہمارے علم میں اضافہ کیا- جس کو ہم میڈیول ہندوستان، معاشرہ، انڈیا کہتے ہیں- جو تاریخ کو ہندتوا نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں وہ اپنا نظریہ لاگو کرناچاہتے ہیں ، وہ بحث نہیں کرنا چاہتے۔
اگر آپ ایک پیچیدہ ، معاشرہ کو سمجھنا چاہتے ہو- تو اس میں آپ کو کئی ، مختلف نقطہ نظر ،پس منظر سے دیکھنا ہو گا- ہر ایک بنیاد، شہادت اور تجزیہ -مورخ کو کرنا ہوگا --اس کو شہادت کو پرکھنا ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ منطق کی سچائی، دلیل کی صحت کو دیکھنا ہو گااور پھر دیکھنا ہو گا کہ ماضی کس طرح ابھرتا ہے -
سوال: آپ آجکل کیا لکھ رہی ہیں ؟
جواب: میں کچھ نہیں لکھ رہی ہوں -میں نےAcademic Monogramلکھنے اب بند کردئے ہیں -
سوال: آپ اپنا وقت کیسے گذارتی ہیں ؟
جواب: میں پڑھتی ہوں ، لیکچر دیتی ہوں ، گفتگو کرتی ہوں اور چھوٹا موٹا لکھ لیتی ہوں، پر کتاب نہیں-
سوال موجودہ حالات آپ ہندوستان میں سیکولرازم کا کیا مستقبل، کس طرح دیکھ رہی ہیں، کیا یہ تبدیل ہوگا؟
جواب:اس کو تبدیل ہونا پڑے گا- میرے خیال میں بہت بحث مباحثہ ہوگا، ممکنہ طور پر جھگڑا ، سیکولرازم کی تعریف پر، مگر، اگر ہندوستان بطور جمہوریت کے زندہ رہتا ہے۔ ہمیں سیکولر ہونا پڑے گا۔ اور کوئی راستہ نہیں۔ اگر ہم تبدیل ہو جاتے ہیں اور ڈکٹیٹر شپ آجاتی ہے پھر سارے خطہ کی سیاست بدل جائے گی۔
سوال: کیا آپ انڈیا میں ڈکٹیٹر شپ کے آثار دیکھ رہی ہیں ؟
جواب: میں نہیں جانتی۔ اس وقت اس کا جواب دینا بہت مشکل ہے-
سوال: عام آدمی پارٹی کے بارے میں کیا خیال ہے-یہ اک نئی قوت ہے؟
جواب: مجھے بہت کم اندازہ ہے، علم نہیں کہ شہر میں ووٹر کس طرح سوچتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ایک طاقت تھی اس میں استعداد تھی لیکن دیکھتے ہیں کہ اب ہے کہ نہیں۔
سوال: آپ کا کیا خیال ہے پاکستان اور انڈیا میں تعلقات بہتر ہوں گے؟
جواب: میں سنجیدگی سے امید کرتی ہوں کہ آخر کار یہ ہونا ہی ہے۔ جب کہ ساراخطہ ثقافتی اور تاریخی طور پر اتنا جڑا ہوا ہے، ہم ا یک ہیں، یہ ہو گا۔ میں نہیں دیکھتی کہ یہ نفرت ہمیشہ رہے گی-