شوگر ملز کیس میں پانامہ لیکس کی باز گشت: نواز شریف کے وکیل اور جسٹس اعجاز الاحسن آمنے سامنے

01:54 PM, 2 Jul, 2020

اسد علی طور
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکیاں ملنے والے سوموٹو کی کوریج کے لئے 9 بج کر 20 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو سینیئر صحافی حامد میر کے ساتھ اینکر محمد مالک بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ دو منٹ بعد ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا بھی کمرہ عدالت میں آ گئے۔ اس دوران سابق اٹارنی جنرل اور سینیئر وکیل مخدوم علی خان کا سٹاف چار فل سائز سوٹ کیس لے آیا اور صحافیوں کے لئے مخصوص ٹیبل کے سامنے کھول کر بیٹھ گیا جب کہ سینیئر قانون دان سلمان اکرم راجہ بھی کمرہ عدالت میں آ کر روسٹرم کے قریب بیٹھ گئے۔ مخدوم علی خان اور سلمان اکرم راجہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل ہیں۔ وفاق نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کو سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے ملنے والے حکم امتناع کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ ہم تو توقع کررہے تھے کہ سب سے پہلے سو موٹو کیس کی سماعت ہوگی لیکن خلاف توقع دھمکیوں پر لیے جانے والے سوموٹ کو چھٹے نمبر پر رکھا گیا تھا جب کہ سب سے پہلے وفاق بنام شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سماعت مقرر تھی۔

9 بج کر 32 منٹ پر کورٹ آ گئی ہے کی آواز لگی تو چیف جسٹس گلزار احمد مرکزی نشست اور ان کے بائیں ہاتھ جسٹس اعجازالاحسن آ کر بیٹھ گئے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان روسٹرم پر آ گئے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کس کی پیٹیشن پر فیصلہ سنایا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اسلام آبا ہائی کورٹ میں پیٹیشن فائل کی تھی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ قیمتوں میں اضافہ کا معاملہ تھا جس پر ایک کمیٹی بنی اور کابینہ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقاتی کمیشن بنایا۔ اٹارنی جنرل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے سٹہ، ڈبل بک رکھنے اور ٹیکس چوری کے سنگین الزامات لگائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے نکات پر وفاقی کابینہ کو فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کارروائی ہوگی؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ وفاقی کابینہ نے متعلقہ اداروں ایف بی آر، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی وغیرہ کو کہا کہ وہ کارروائی کریں لیکن شوگر ملز مالکان کو صفائی کا پورا موقع دیں۔ اٹارنی جنرل نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہتے ہیں یہ ہمارے وقار کا معاملہ ہے تو آپ کے پاس پورا موقع ہوگا آپ جا کر صفائی دینا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے شوگر ملز ایسوسی ایشن پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ سر یہ اشرافیہ کی اجارہ داری کا معاملہ ہے اور اس رپورٹ میں بڑے بڑے انکشافات کیے گئے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال پوچھا کہ کیا ابھی تک کوئی ایکشن لیا گیا ہے؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال پوچھا کہ کیا سندھ ہائی کورٹ نے کارروائی روکنے کا عبوری حکم دیا ہے؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے ہاں میں جواب دیا اور دو رکنی بینچ کو آگاہ کیا کہ سر یہ اسلام آباد ہائی کورٹ گئے، سندھ ہائی کورٹ گئے اور ہر جگہ وفاق کا مؤقف ہے کہ یہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کی رپورٹ ہے جس پر ابھی کارروائی ہونا ہے۔

اس موقع پر دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان سے پوچھا کہ ابھی تو کمیشن رپورٹ آئی ہے تو آپ کو ابھی سے حکم امتناعی کیوں چاہیے ہے؟ مخدوم علی خان نے استدعا کی کہ سر وفاق کے پاس تمام ریگولیٹر اور دوسرے قانونی ادارے موجود ہیں اور ان کو استعمال کرنے کا اختیار بھی ہے تحقیقات کے لئے پھر ایسے کوئی غیر معمولی حالات نہیں تھے کہ کمیشن کا تقرر کیا گیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل سے سوال پوچھا کہ کمیشن کی رپورٹ پر آپ کے تحفظات کیا ہیں؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ قانون کہتا ہے کہ اگر رپورٹ آپ کی ساکھ متاثر کرے تو آپ اس کو عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر کارٹلائزیشن اور ٹیکس فراڈ کے الزام لگیں گے اور الزامات بھی اس شعبے کی تحقیقات کرنے کے ماہرین کی طرف سے لگیں گے تو کارروائی تو ہوگی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اگر اس رپورٹ کے تحت لگے الزامات پر کارروائی ہو تو پھر آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان کو یقین دہانی کروائی کہ اگر آپ کو سنے بغیر آپ کے خلاف کارروائی ہوئی تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے آبزرویشن دی کہ پورے ملک میں چینی کی قیمت بڑھنے کا شور تھا جس پر وفاقی حکومت نے نوٹس لیا کہ ریگولیٹر اپنا کام نہیں کر رہے تو کمیشن بنا دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اگر اب کارروائی ہوگی تو آپ عدالت آ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کارروائی ہونے ہی نہیں دیں گے تو اگلے دس سال بھی کچھ نہیں ہوگا۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سر جو بھی کارروائی ہونی ہے وہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہونی چاہیے اور قانون کی رو سے ایسی کمیشن رپورٹس حقائق نہیں صرف رائے کہلاتی ہیں۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دنیا کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ ایسی رپورٹس شہریوں کی ساکھ کے لئے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ایسی رپورٹس عموماً حکومت کی فائلوں میں ہی دب جاتی ہیں اور باہر کچھ نہیں آتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جب کہہ دیا کہ کارروائی شفاف طریقے سے قانونی طریقہ کار کے مطابق چلنی چاہیے تو جب قانونی طریقہ کار کی بات آ گئی تو پھر آپ کے حقوق کو تحفظ مل گیا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت اور شوگرملز ایسوسی ایشن کو یقین دہانی کروانے کے لئے کہا کہ میں متفق ہوں کہ میڈیا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے اور ہم نے حکومتی عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ کوئی بھی ٹی وی پر اس رپورٹ پر تبصرہ نہیں کرے گا۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر انکشاف کیا کہ کابینہ نے کمیشن رپورٹ متعلقہ اداروں کو بھجوا دی ہے اور ان کو کہا ہے کہ یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ اپنا ذہن استعمال کر کے فیصلہ کریں کہ کارروائی کرنی ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل کو مخاطب کر کے سوال پوچھا کہ مخدوم صاحب جب تک یہ رپورٹ نہیں آئی کیا آپ نے کہیں پر کمیشن کو چیلنج کیا تھا؟ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے اس موقع وفاقی حکومت کی اہلیت پر گہرا وار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اشرافیہ کی اجارہ داری کا کیس ہے اور حکومت تمام ریگولیٹر اور قانون کے تحت قائم اداروں کی مدد سے بھی اگر عام شہری کو اشرافیہ کی اجارہ داری سے نہیں بچا پا رہی تو پھر یہ حکومت کرنے کے لئے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے مخدوم علی خان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ آپ نے کمیشن کے ممبرز پر تعصب کا الزام بھی لگایا ہے اور یہ الزام آپ نے کمیشن رپورٹ آنے کے بعد لگایا ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کیونکہ وفاق نے کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن سرکاری گزٹ میں شامل نہیں کیا تھا تو ہم چیلنج نہیں کر سکے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال پوچھا کہ کیا یہ کمیشن رپورٹ ثبوت کہلا سکتی ہے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صرف اس صورت میں اگر کمیشن کے ممبران پر جرح کی جائے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ میرے سامنے میر مرتضیٰ بھٹو قتل پر قائم کمیشن رپورٹ لائی گئی جو جسٹس ناصر اسلم زاہد نے لکھی تھی تو میں نے کہا یہ کیا ہے؟ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفیکیشن کسی کی دراز میں پڑا ہوگا کہ جب باری آئے گی تو شائع ہو جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن قائم ہونے اور کمیشن کے تحقیقات کرنے کی خبر صبح شام ہر ٹی وی چینل پر چل رہی تھی تو شوگر ملز والے یہ تو مت کہیں کہ انہیں کمیشن کی رپورٹ پر سرپرائز ملا اور وہ اس سے پہلے کہیں چیلنج نہیں کر سکے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سرپرائز نہیں تھا لیکن نوٹیفکیشن ایک قانونی گراؤنڈ ہوتا ہے چیلنج کرنے کا جو سرکاری گزٹ میں موجود ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ جو مرضی کر لیں، اب تو رپورٹ آ گئی ہے اور یہ اپنی جگہ پر موجود رہے گی جب کہ یہ اداروں پر منحصر ہے کہ وہ اس رپورٹ سے مواد لیتے ہیں یا نہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ رپورٹ شہادت کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتی تو پھر آپ اس کے خلاف عدالت کیوں آ گئے ہیں؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سر یہ رپورٹ میری ساکھ پر اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر ایف بی آر کہتا ہے کہ اس رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ آپ ٹیکس چوری کے لئے ڈبل بکس رکھتے تھے تو آپ چیلنج کر سکتے ہیں، اس مرحلے پر اس رپورٹ کو اڑا دینا بہتر نہیں ہوگا کیونکہ ابھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو شوگر ملز ایسوسی ایشن کے حقوق بھی متاثر نہیں ہوئے۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سر کمیشن شوگر ملز ایسوسی ایشن کو بغیر سنے ہماری ساکھ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 14 شہری کے وقار اور عزت کی بات کرتا ہے، کمپنی کی نہیں۔ مخدوم علی خان سٹپٹا کر بولے سر براہِ مہربانی آپ قانون کی اتنی تنگ نظر تشریح مت کریں، کمپنیاں بھی تو شہری کی ہوتی ہیں۔ یہ بہت غلط مثال قائم ہو جائے گی جس کے دوررس اثرات ہوں گے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے حکم لکھوانا شروع کر دیا اور شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان جاکر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ حکم لکھوانے کے لئے جب چیف جسٹس گلزار احمد نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کو معطل کرنے کی بات کی تو شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان فوراً اٹھ کر روسٹرم کی طرف لپکے۔ اس موقع پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان اور ججز کے درمیان انتہائی اہم مکالمہ ہوا۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینک نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے حق میں فیصلہ دیا ہے، براہِ مہربانی سپریم کورٹ کا بھی کم از کم تین رکنی بینچ اس کے میرٹ کا فیصلہ کرے، دو رکنی مت کرے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر ریگولیٹر کارروائی نہیں کر رہے تو ہی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہ کوئی پہلی مثال نہیں، اس سے پہلے جب نیب نے کارروائی سے معذوری ظاہر کی تھی تو پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے مختلف اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا دی تھی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان جو پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل بھی تھے اس موقع پر انتہائی تلخ اور بلند آواز میں اپنے سفید دستانوں والے ہاتھوں سے جسٹس اعجاز الاحسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ پانامہ لیکس جیسے کیسز کا حوالہ مت دیں بلکہ دنیا میں رائج بہترین قانونی پریکٹس اور کیسز کا حوالہ دیں تو بہتر ہوگا۔

مخدوم علی خان کا مزید کہنا تھا کہ پانامہ لیکس میں جو ہوا اس کی مثال کبھی نہیں ملتی اور یہ ایک ایسی خطرناک سمت ہے جس طرف عدالت براہِ مہربانی مت جائے اور میرے اس مثال پر تحفظات ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن جو نہ صرف سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی کا فیصلہ دینے والے بینچ کے تین ججز میں شامل تھے بلکہ انہوں نے پانامہ فیصلہ عملدرآمد بینچ کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیے تھے اب مخدوم علی خان کے سامنے دفاعی پوزیشن میں تھے اور بظاہر اپنے فیصلہ کا دفاع نہیں کر پا رہے تھے۔

یہ تمام مکالمہ اور مناطر ہر لحاظ سے دلچسپ تھے کہ پانامہ لیکس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل کرنے والے دو ججز جن میں سے ایک چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے ہیں اور ایک آنے والے سالوں میں چیف جسٹس بننے والے ہیں سابق وزیر اعظم نوازشریف کے سابق وکیل مخدوم علی خان کا پانامہ لیکس کیس فیصلہ پر ہی سامنا کر رہے تھے۔

پانامہ لیکس مقدمہ کی تمام سماعتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور نوٹس لینے اور دونوں فیصلوں کو گھنٹوں پہلے اے آر وائے نیوز پر بریک کرنے کی بنیاد پر پورا مقدمہ تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ ایسا لگا اس وقت شوگر ملز ایسوسی ایشن کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نظر ثانی کی اپیل کی سماعت ہو رہی ہے۔ بہرحال شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان ججز کے منہ سے نکلتا ہوا حکمنامہ کامیابی سے تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے اور عدالت نے وفاق کو فی الحال خالی ہاتھ واپس بھیجتے ہوئے اگلی سماعت 15 جولائی کو تین رکنی بینچ کے سامنے مقرر کر دی جب کہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی برقرار رکھا۔
مزیدخبریں