اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر جنگلات سردار میر اکبر خان نے کہا کہ محکمہ اکلاس چونکہ اب ختم ہو چکا ہے لہذا اس سے متعلقہ جملہ امور اب محکمہ جنگلات کو تفویض کرنے کے لیے یہ ترمیمی ایکٹ لایا گیا ہے۔ جنگل سے متعلقہ تمام تر اختیارات اب محکمہ جنگلات کے پاس ہوں گے۔
کریمنل ترمیمی ایکٹ کے حوالہ سے تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی احمد رضا قادری نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہے جس کے تدارک کے لیے یہ قانون لایا گیا ہے۔ پہلے سے موجود قانون میں سزا کم ہونے کی وجہ سے لوگ ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں کرتے تھے۔ جبکہ حدود کیسز میں شہادت کے طریقہ کار کی وجہ سے اکثر بے گناہ لوگ پھنس جاتے تھے اور گناہ کار بری ہو جاتے تھے۔
احمد رضا قادری نے کہا کہ اس قانون کے تحت اگر کوئی شخص 18 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ بدفعلی کرے گا تو عدالت کا اختیار ہو گا کہ وہ اسے سزائے موت، عمر قید، جرمانہ یا پھر جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی سزا دے سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص بدفعلی کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے بھی 5 سے 10 سال تک کی سزا رکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس کی تفتیش کم از کم ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس کی سطح کا آفیسر کر سکے گا جبکہ ٹرائل سیشن کورٹ کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ 60 ایام کے اندر کیس کا فیصلہ کرے۔ اگر مقررہ مدت میں کیسز کا فیصلہ نہیں ہوتا تو ٹرائل کورٹ اس کی معقول وجہ بتائے گی اور عدالت عالیہ سے مدت میں اضافے کی اجازت لے گی۔
اس موقع پر ممبر اسمبلی عبدالماجد خان کے سوال پر سردار فاروق احمد طاہر نے کہا کہ اکلاس کے جملہ معاملات طے کرنے کا طریقہ کار بھی اس ترمیمی ایکٹ میں وضع کردیا گیا ہے۔ جبکہ قائمہ کمیٹی میں میں شرکت چیئرمین مجلس قائمہ کی دعوت پر کی۔ چیئرمین مجلس قائمہ کو قواعد و انضباط کار کے تحت اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری ملازم یا ممبر اسمبلی کو دعوت دے سکتا ہے۔