سابق وزیر اعظم نواز شریف کہتے چلے گئے کہ انہیں کیوں نکالا؟ وہ کہتے تھے کہ میں نے تو صرف اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی، تو پھر میرا قصور کیا ہے؟ ایک ایسی تنخواہ جو کبھی میرے اکاؤنٹ میں نہیں آئی، میں اس کے لئے جوابدہ کیوں ہوں؟ لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس تنخواہ کا ذکر اپنے ٹیکس ریٹرنز میں شامل نہ کر کے بدنیتی کا ثبوت دیا ہے۔ نتیجتاً انہیں ان کی مبینہ کرپشن پر مقدمات چلنے سے قبل ہی سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دے دیا گیا۔
لیکن لگتا یہی ہے کہ پانامہ لیکس کیس بھی پاکستان کی تاریخ میں وہی حیثیت حاصل کرے گا جو اس سے قبل مولوی تمیز الدین کیس، ڈوسو کیس، عاصمہ جیلانی کیس، ظفر علی شاہ کیس، اور ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل والے کیس کو حاصل ہے کہ یہ کیسز مہذب دنیا میں کہیں عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے۔
باقی دنیا کو تو چھوڑیے، حال ہی میں جب قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بیرسٹر فروغ نسیم نے ان کے خلاف پانامہ کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس مقبول باقر اور بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال دونوں نے اسے نظیر ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ کسی بھی صورت اس کیس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کی تو وجوہات بیان کی گئی تھیں لیکن جمعرات کو جب سپریم کورٹ میں شوگر مل ایسوسی ایشن کے وکیل کے سامنے خود جسٹس اعجاز الاحسن نے JIT بنانے کے حوالے سے پانامہ کیس کا حوالہ دیا تو شوگر مل ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے اس پر شدید اعتراض کیا اور جسٹس اعجاز الاحسن جو کہ خود پانامہ کیس بنچ کا حصہ تھے، مخدوم علی خان کے اعتراضات کو ماننے پر مجبور ہو گئے اور حکم لکھواتے ہوئے ان کے دلائل کو تسلیم کر لیا۔
اسد علی طور نے عدالتی کارروائی کا احوال نیا دور کے لئے رپورٹ کیا ہے۔ اس رپورٹ کو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اس رپورٹ کا سب سے دلچسپ پہلو یہاں پر قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ
چیف جسٹس نے حکم لکھوانا شروع کر دیا اور شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان جاکر اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ حکم لکھوانے کے لئے جب چیف جسٹس گلزار احمد نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کو معطل کرنے کی بات کی تو شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان فوراً اٹھ کر روسٹرم کی طرف لپکے۔ اس موقع پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان اور ججز کے درمیان انتہائی اہم مکالمہ ہوا۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینک نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے حق میں فیصلہ دیا ہے، براہِ مہربانی سپریم کورٹ کا بھی کم از کم تین رکنی بینچ اس کے میرٹ کا فیصلہ کرے، دو رکنی مت کرے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر ریگولیٹر کارروائی نہیں کر رہے تو ہی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور یہ کوئی پہلی مثال نہیں، اس سے پہلے جب نیب نے کارروائی سے معذوری ظاہر کی تھی تو پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے مختلف اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا دی تھی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان جو پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل بھی تھے اس موقع پر انتہائی تلخ اور بلند آواز میں اپنے سفید دستانوں والے ہاتھوں سے جسٹس اعجاز الاحسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ پانامہ لیکس جیسے کیسز کا حوالہ مت دیں بلکہ دنیا میں رائج بہترین قانونی پریکٹس اور کیسز کا حوالہ دیں تو بہتر ہوگا۔
مخدوم علی خان کا مزید کہنا تھا کہ پانامہ لیکس میں جو ہوا اس کی مثال کبھی نہیں ملتی اور یہ ایک ایسی خطرناک سمت ہے جس طرف عدالت براہِ مہربانی مت جائے اور میرے اس مثال پر تحفظات ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن جو نہ صرف سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی کا فیصلہ دینے والے بینچ کے تین ججز میں شامل تھے بلکہ انہوں نے پانامہ فیصلہ عملدرآمد بینچ کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیے تھے اب مخدوم علی خان کے سامنے دفاعی پوزیشن میں تھے اور بظاہر اپنے فیصلہ کا دفاع نہیں کر پا رہے تھے۔
یہ تمام مکالمہ اور مناطر ہر لحاظ سے دلچسپ تھے کہ پانامہ لیکس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل کرنے والے دو ججز جن میں سے ایک چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے ہیں اور ایک آنے والے سالوں میں چیف جسٹس بننے والے ہیں سابق وزیر اعظم نوازشریف کے سابق وکیل مخدوم علی خان کا پانامہ لیکس کیس فیصلہ پر ہی سامنا کر رہے تھے۔
بہرحال شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان ججز کے منہ سے نکلتا ہوا حکمنامہ کامیابی سے تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے اور عدالت نے وفاق کو فی الحال خالی ہاتھ واپس بھیجتے ہوئے اگلی سماعت 15 جولائی کو تین رکنی بینچ کے سامنے مقرر کر دی جب کہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی برقرار رکھا۔