ایک انٹرویو میں یونس خان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ کھلاڑیوں کا یہ عمل کپتانی حاصل کرنے کا معاملہ تھا، شاہد آفریدی نے خود یہ مان لیا تھا کہ وہ ان کی شکایت لے کر اس وقت کے چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کے پاس گئے تھے ، آل راؤنڈر کراچی سے فلائٹ لے کر اسلام آباد گئے اور بات بھی کی تو شاید اس سب کے ماسٹر مائنڈ بھی وہی ہوں گے، معلوم نہیں کہ انھوں نے یہ بات کیوں کہی کہ انہیں شکایت تو ہے مگر یونس خان کو کپتانی سے نہیں ہٹانا چاہتے۔
انھوں نے کہا کہ جس نے بھی بات کی اس کا یہی کہنا تھا کہ یونس خان سخت مزاج ہیں، کرکٹرز ان کی کپتانی میں کھیلنا نہیں چاہتے، کسی نے خود یہ نہیں کہا کہ وہ کھیلنے کو تیار نہیں بلکہ سب دوسروں کی بات کرتے رہے۔
اس سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق بیٹنگ کوچ یونس خان نے بیٹنگ کوچ کے عہدے سے استعفی دینے کے بعد انکشاف کیا کہ پی سی بی کے ڈائریکٹر انٹر نیشنل کرکٹ کے دھمکی آمیز فون کی وجہ سے پاکستان ٹیم کے ساتھ اپنی راہیں جدا کیں تھیں۔میں نے انہیں بتایا کہ میری سرجری ہے میں ٹیم جوائن نہیں کرسکتا، مجھے کہا گیا اگر آپ نہیں آئیں گے تو محمد حفیظ جیسی صورت حال ہوسکتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں محمد حفیظ نہیں، یونس خان ہوں ۔
نجی ٹی وی کو انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ جنوری میں بھی میں ہائی پرفارمنس سینٹر کی مداخلت پر عہدے سے استعفیٰ دے چکا تھا لیکن وسیم خان نے معذرت کے بعد میں نے استعفیٰ واپس لیا تھا۔ یونس خان نے کہا کہ لاہور میں کیمپ تھا پی سی بی نے بائیو سیکیور ببل سے متعلق نہیں بتایا تھا،تین جون کو پی سی بی کی کال آئی کہ آپ کی فلائٹ بک کرلی گئی ہے۔ 22 جون کو ڈاکٹر کی کال آئی کہ آپ نے بائیو سیکیور ببل جوائن نہیں کیا، میں نے انہیں کہا میری سرجری ہے میں بائیو سیکیور ببل میں نہیں آسکتا۔