پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نواز شریف اور علی وزیر سے متعلق کیا بات ہوئی؟

08:48 PM, 2 Jul, 2021

نیا دور
پارلیمنٹ ہاؤس میں جمعرات کے روز شروع ہونے والے اجلاس جس میں قومی سلامتی کے حوالے سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے تفصیلی انداز میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کو بریفنگ دی جمعہ کے روز بھی جاری رہا اور اس دوران چند انتہائی اہم حقائق پر سے پردہ اٹھایا گیا۔ واضح کرتے چلیں کہ یہاں کیا بات ہوئی اور کیا نہیں، یہ سب ذرائع کے حوالے سے ہی باہر آ رہا ہے کیونکہ اجلاس کی کارروائی کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ چند اہم ترین نکات جن پر بات کی گئی وہ درجِ ذیل تھے:

  • افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دونوں ایک ہی ہیں۔

  • چین اور بھارت کے بارت میں بات نہ ہونے کے برابر کی گئی۔

  • امریکہ نے پاکستان سے اڈے نہیں مانگے اور پاکستان دے گا بھی نہیں۔ اس موقع پر البتہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ ضرور بتایا کہ جنرل مشرف کے دور سے امریکہ کا پاکستان کی ایئر سپیس استعمال کرنے کے حوالے سے معاہدہ ہے جو کہ جاری رہے گا لیکن پاکستان امریکہ کو کوئی اڈے دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

  • افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہونے کی صورت میں پاکستان کا ردِ عمل


اڈے دینے اور نہ دینے کے حوالے سے تو بہت سی بات چیت گذشتہ ہفتوں میں ہوتی رہی ہے لیکن دو چیزیں یہاں نئی ہیں۔ پاکستان تاریخی طور پر افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان کو دو الگ گروہوں کے طور پر لیتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ افغان طالبان جب افغانستان کے اندر حملے کر رہے تھے تو تحریکِ طالبان پاکستان اس دوران پاکستان کی ریاست کے خلاف صف آرا تھی۔ اس تحریک کو جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دونوں گروپس میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں ایک ہی جماعت تھیں۔ بعد ازاں جب تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنا علیحدہ دھڑا بنا لیا تو بھی وہ ملا عمر کو امیرالمؤمنین مانا کرتے تھے، البتہ عبداللہ محسود، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، خالد سجناں، ملا فضل اللہ اور اب نور ولی محسود خود کو پاکستان میں طالبان کا امیر کہا کرتے تھے۔ بالآخر جب پاکستانی ریاست کو یہ سمجھ آ چکی ہے کہ یہ دونوں گروپ ایک ہی ہیں تو پھر اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔

کیونکہ اسی سے جڑا مسئلہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ بھی ہے۔ اس اجلاس میں پارلیمنٹیرینز سے پوچھا گیا کہ طالبان اگر بذریعہ جنگ کابل میں اقتدار حاصل کرتے ہیں تو پاکستان کو کیا کرنا چاہیے جس پر اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف تھا کہ پاکستان کو انہیں تسلیم نہیں کرنا چاہیے جب کہ حکومتی جماعت کی طرف سے شیریں مزاری بولیں کہ اس پر پاکستان کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے، جو بھی اقتدار میں ہو، پاکستان کو اسی کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کو یاد رکھنا ہوگا کہ دونوں صورتوں میں کچھ نتائج ہوں گے اور ہمیں ان نتائج کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ افغانستان میں ہر حال میں امن چاہتے ہیں اور انہوں نے یاد دلایا کہ انہوں نے خود پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں محسن داؤڑ اور منظور پشتین کو بلا کر ملاقات بھی کی تھی۔

اس موقع پر ذرائع کی اطلاعات کے مطابق محسن داؤڑ نے ایک لمبی تقریر بھی کی۔ محسن داؤڑ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے بے شک ملاقات کی تھی اور ملاقات میں یہی کہا تھا کہ وہ افغانستان میں امن چاہتے ہیں لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ قبائلی علاقوں میں طالبان موجود ہیں اور صرف ان کے خاندان نہیں، خود طالبان یہاں موجود ہیں جو پاکستان سے افغانستان جاتے ہیں۔ محسن داؤڑ نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی کا سب سے بڑا جھول ہی یہ ہے کہ ہم نے شروع سے صرف طالبان کو دوست بنانے کی کوشش کی اور وہ عناصر جو امن کی بات کرتے ہیں ان کے ساتھ ہم نے تعلقات بنائے ہی نہیں ہیں۔ یہاں پر بھی عوام کے حقیقی نمائندوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور انتخابات میں نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں۔ آرمی چیف نے جواباً انہیں کہا کہ یہاں جو عناصر موجود ہیں، پاکستانی فوج ان کے خلاف کارروائی کے لئے تیار ہے لیکن اس کے لئے ہمیں سیاسی حمایت درکار ہوگی۔ انہوں نے دھاندلی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر دھاندلی کرنا ہوتی تو بیرونی فنڈنگ حاصل کرنے والوں کو سب سے پہلے ہرواتے۔ محسن داؤڑ بھی اسمبلی میں نہ پہنچتے۔ محسن داؤڑ نے جواب دینا چاہا تو سپیکر اسد قیصر نے انہیں روکا جس پر آرمی چیف نے کہا کہ آپ انہیں بات کرنے دیں۔

جواب دیتے ہوئے محسن داؤڑ نے کہا کہ انہیں ہروانے کی کوشش کی گئی تھی اور ایک پولنگ سٹیشن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں بہت ٹھپے لگے لیکن ہم اس کے باوجود جیتے۔ بیرونی فنڈنگ کی بات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ بیرونی فنڈنگ کا الزام لگاتے ہیں، ثبوت پاکستان کی کسی عدالت میں لے آئیں اور ہم سب کو پھانسی چڑھا دیں۔

اس موقع پر مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ محسن داؤڑ جیسے لوگ پاکستان کی سافٹ پاور ہیں، انہیں استعمال کریں، ان کے ذریعے افغان بارڈر کے دوسری جانب جو امن پسند شہری ہیں، انہیں اپنا نقطۂ نظر سمجھائیں اور انہیں پل بنائیں۔ محسن داؤڑ نے اس موقع پر لر او بر یو افغان یعنی یہاں وہاں سب افغان ایک ہیں کے نعرے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پشتون اور افغان ایک ہی چیز ہے۔ آپ مشتاق غنی سے پوچھ لیجئے، علی محمد خان سے پوچھ لیجئے، یہ سب بھی پشتون ہیں اور ساتھ افغان بھی ہیں۔ یاد رہے کہ لر او بر یو افغان نعرے کو ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی presentation میں استعمال کیا تھا گویا یہ پاکستان کے خلاف کوئی بات ہو۔ جس پر محسن داؤڑ نے یہ وضاحت پیش کی۔

اس موقع پر شاہد خاقان عباسی نے علی وزیر کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ علی وزیر ایک منتخب نمائندہ ہے، اسے ہتھکڑی لگا کر لایا جاتا ہے تو یہ میرے لئے بطور ایک پارلیمنٹیرین شرمندگی کا باعث ہے۔ سوچیے کہ اس حلقے کے لوگوں کے لئے کتنا باعثِ شرم ہوگا جنہوں نے اس کو ووٹ دے کر اسمبلی تک پہنچایا۔ انہوں نے استدعا کی کہ انہیں رہا کر دیا جائے۔ آرمی چیف نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے ان کی ذات پر تنقید کی تھی جسے برداشت کیا لیکن علی وزیر نے پاکستانی فوج کے بارے میں غلط بات کی ہے، اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کے جذبات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ اپنے خاندان کے کئی افراد کو کھو چکے ہیں اور ایسے میں انہوں نے جذباتی تقریر کی۔ انہوں نے بھی استدعا کی کہ علی وزیر کو چھوڑ دیا جائے۔ آرمی چیف نے جواباً کہا کہ علی وزیر وہ واحد شخص نہیں جس کے خاندان کے لوگ قتل ہوئے ہیں، پاک فوج کے جوانوں نے بھی قربانیاں دی ہیں، ہمارے بھی خاندان والے ہیں۔ کیا ہمیں گالیاں دینا جائز ہے؟َ بلاول اور دیگر اپوزیشن اراکین نے تسلیم کیا کہ فوج کی قربانیاں پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور ان قربانیوں کا انکار ممکن نہیں، لیکن علی وزیر کے خاندان کے ایک درجن سے زائد افراد شہید ہوئے ہیں، آپ براہِ مہربانی انہیں رہا کر دیں۔ جس پر آرمی چیف نے کہا کہ اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ علی وزیر معافی مانگ لیں تو انہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔ یہاں محسن داؤڑ نے بھی کہا کہ فوج کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں لیکن یہ کارروائیاں علی وزیر یا پشتون تحفظ تحریک تو نہیں کر رہے ہمارا تو مطالبہ ہی یہ ہے کہ ان دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

اب ظاہر ہے کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔ ایک طرف طالبان ہیں جو پاک فوج کے خلاف ملک کے اندر برسرپیکار ہیں اور PTM جیسی تنظیموں پر بھی مظالم ڈھا رہے ہیں لیکن دوسری طرف حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے بارڈر پر افغانستان بھی ہے جہاں ہماری اپنائی گئی پالیسی کا ملک کے اندر بھی اثر پڑتا ہے اور اس وقت ملک جس دوراہے پر ہے، کون سا راستہ درست ثابت ہوگا کہنا انتہائی مشکل ہے۔ ایک بات جو وثوق سے لیکن کہی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ خطے کے معاملات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ڈائیلاگ کا یہ سلسلہ جو اب شروع ہوا ہے، انتہائی خوش آئند ہے کیونکہ اس میں پوری قومی قیادت کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ عمل اب سے تین چار سال قبل شروع کیا گیا ہوتا تاکہ ہم اپنے فیصلے لینے میں نسبتاً آزاد ہوتے اور وقت اور حالات ہمیں ڈکٹیٹ نہ کر رہے ہوتے۔ اب جب کہ امریکی فوجوں کا انخلا سر پر کھڑا ہے، شاید اس عمل کی شروعات میں بہت دیر کر دی گئی ہے لیکن ابھی بھی اگر یہ عمل جاری رہے تو یقیناً کسی بہتر نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ شرط یہی ہے کہ بات چیت براہِ راست ہو اور مسلسل جاری رہے۔
مزیدخبریں