پولیس لائن میں شہدا کے خاندانوں سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کے اہلخانہ کو ایک ارب 22کروڑ واجبات کی ادائیگی گذشتہ پانچ چھ سال سے واجب الادا تھی اور ماضی کی حکومت نے اس حوالے سے غفلت برتی، اس میں تاخیر کی گئی ہمارے لیے باعث شرمندگی ہونی چاہیے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار کے قریب عام شہری شہید ہوئے جبکہ پولیس، رینجرز، ایف سی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے 12 ہزار اہلکار بھی شہید ہوئے، اس جنگ کی قوم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے جبکہ ہماری معیشت نے 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا اٹھایا ہے اور آج ہماری معیشت کی اتنی بدترین صورتحال کی ایک وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے اور ایک خوشحال ملک بنانا ہے تو بہتر زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں کیونکہ یہ صرف سیاستدانوں کا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا فرض ہے کہ مستقبل کے پیش نظر فیصلے کریں اور حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس حوالہ سے قوم بہترفیصلہ کرے گی اور انتشار کے خواہش مندوں کی بجائے اتفاق رائے سے ملک کو آگے بڑھانے والوں کا ساتھ دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم کو ایسے عناصر شناخت کرنے چاہئیں جو کہتے تھے کہ میں یہ کروں گا وہ کروں گا، ا گر ایسا تھا تو چار سال میں انہوں نے اپنی حکومت کے دوران عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے کیا کیا، عمران خان نے صرف احسن گجر اور فرح گوگی کی تقدیر بدلی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے لیے اگر تمام سیاسی قوتیں سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گی تو بہتری ممکن نہیں، اس وقت ملک کی تمام سیاسی قیادت ایک جگہ پر اکٹھی ہے لیکن صرف عمران خان فرد واحد ہے جو انارکی ، افراتفری اور فساد فی الارض کا ذمہ دار ہے جو کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں لیکن ملک کو آگے لے جانے کے لیے ہم سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے حالیہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ماضی کے حکمرانوں کی خامیوں کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر ہم انتخابات میں جاتے تو ملک کے ڈیفالٹ کا خدشہ تھا اس لیے معاشی صورتحال کے پیش نظر مشکل فیصلے کیے تاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے، اس مجبوری کے تحت تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا، اگر اس سے بچنے کی کوئی صورت ممکن ہوتی تو ضرور کرتے تاکہ مہنگائی میں کمی لائی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے ایک مہینے کے دوران ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ تیل کی قیمت نہ بڑھانی پڑے اور عام آدمی کو مہنگائی سے بچایا جا سکے، مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور ہماری حکومت قیمتوں میں اضافہ کسی صورت نہیں چاہتی تھی اور ہم ایک سے زائد بار یہ بھی سوچا کہ یہ کام کرنے کے بجائے ہمیں الیکشن میں چلے جانا چاہیے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں اور وہ ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے جبکہ دوسری جانب دہشت گردی کی جنگ کے باعث معاشی نقصانات 150 ارب ڈالر سے زیادہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے کہا گیا کہ رقم زیادہ ہے اس لیے آدھی اس سال اور آدھی اگلے سال ادا کر دی جائے لیکن جب وزیراعظم سے درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ اگر واجبات 22 ارب روپے بھی ہوں تو اسی سال ادا ہونے چاہیں۔