واضح رہے کہ ایک بین الاقوامی جریدے فارن پالیسی نے دعویٰ کیا تھا کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت کرونا وائرس کے شدید وار کا نشانہ بن چکی ہے اور ذرائع کے توسط سے جریدے نے کہا تھا کہ امیر تحریک طالبان افغانستان مل ہیبت اللہ اخوندزادہ کرونا وائرس سے انتقال کر چکے ہیں۔
جریدے نے لکھا کہ گذشتہ تین ماہ سے طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ منظر عام پر نہیں آئے حتیٰ کہ عید کے موقع پر رسمی لیکن بہت اہم پیغام بھی منظر عام پر نہیں آیا۔ جس کے بعد عام تاثر یہی پایا جا رہا ہے کہ انکی وائرس سے موت واقع ہوچکی ہے۔
فارن پالیسی جریدے سے بات کرتے ہوئے طالبان ذرائع نے بتایا کہ وہ ایک ہمسایہ ملک کے ہسپتال میں داخل تھے اور ان کا علاج جاری تھا۔ یہ پوچھنے پر کہ آیا وہ پاکستان کے ہسپتال میں داخل تھے اس کا کہنا تھا کہ آپ ہمیشہ یہی کیوں سمجھتے ہیں کہ طالبان صرف پاکستان ہی جا سکتے ہیں ہمارے دیگر ممالک سے بھی رابطے ہیں جو کہ پاکستان سے زیادہ طاقتور اور ہمارے حلیف ہیں۔
دوسری جانب یہ اطلاعات تو اب تصدیق شدہ ہیں کہ تحریک کا عملی انتظام ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب نے سنبھال لیا ہے وہی تحریک کے انتظامی مالی و عسکری معاملات دیکھ رہے ہیں۔
تاہم یہ صرف معاملات دیکھنے تک محدود نہیں ہے۔ ملا یعقوب تیزی سے تحریک کی مسند قیادت پر اپنا قبضہ جما رہے ہیں۔
دوسری جانب افغان امن عمل کے تحت ہونے والی تمام پیش رفت بھی اچانک معطل سی ہوئی لگ رہی ہے کیونکہ متعلقہ طالبان لیڈران اچانک غیر معمولی عرصے سے غائب ہیں۔ جیسا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے قیدیوں کے تبادلے کا دوسرا دور اس لئے نہیں شروع ہو سکا کیونکہ طالبان قیدی کمیشن کے سربراہ ملا نور الدین ترابی ڈیل کے لئے کابل نہیں آئے۔ اسی طرح دیگر پہلووں پر بھی پیش رفت معطل ہے سوائے اس کے کہ طالبان کی جانب سے عید پر سیز فائر کا اعلان کیا گیا اور اس پر تاحال کوئی دوسرا اعلان سامنے نہیں آیا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے سب کچھ موجود ہے تاہم اپنی جگہ پر ساکت ہے۔
اس ساری صورتحال میں انٹیلی جنس ، سفارتی، اور فوجی ذرائع یہ مانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا کا افغان سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔ اگر طالبان کی قیادت جلد رونما نہیں ہوتی تو طالبان کے اندر طاقت کے لئے لڑائی شروع ہوگی۔ حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر دھڑے اپنی اپنی راہ پکڑیں گے اور ساتھ ہی ساتھ افغانستان میں اقتدار کے امیدواران کے درمیان مجموعی طور پر موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ایک نئے سرے سے دو بدو لڑائی ہوگی جس میں امن کے امکانات مسدود ہوں گے۔
دوسری جانب امریکا کی پتلی معاشی اور عالمی سیاسی صورتحال بھی افغانستان کے سیاسی ابال میں مزید جوش پیدا کرے گی۔ امریکا جو اس وقت اندرونی طور پر تقسیم کا شکار تھا اب وہاں یہ تقسیم متشدد شکل اختیار کر رہی ہے اور اس دوران وہاں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے افغانستان آخری ترجیحات میں سے رہے گا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گو عامی وبا سے پیدا ہونے والا انتشار افغانستانی سیاسی منظر نامے پر ڈرامائی تبدیلیاں لا سکتا ہے تاہم خدشہ ہے کہ افغان عوام کا پر امن افغانستان کا خواب فی الحال خواب ہی رہے۔