پاکستانی بائیں بازو کے بزرگ دانشور طارق علی کے ساتھ اک بیٹھک کی کچھ یادیں

پاکستانی بائیں بازو کے بزرگ دانشور طارق علی کے ساتھ اک بیٹھک کی کچھ یادیں
سوال:  آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ورلڈ سوشل فورم اور امن تحریک  امریکہ کو عراق پر حملہ سے نہ روک سکی-آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ کے عراق پر قبضہ کے بعد دنیا بدل جائے گی؟

جوا ب: جو مظاہرے جن سےعراق کی جنگ کو روکنے کی کوشش کی گئی فیقد المثال تھے-ان کا حجم، دائرہ کاراور پیمانہ عظیم الشان تھے- 30 لاکھ لوگ روم میں، 15 لاکھ لندن میں ، 20 لاکھ سپین اور 20 لاکھ امریکہ میں مارچ کر رہے تھے-ایک ہی دن دنیا میں ایک کروڑ لوگ مارچ کر رہے تھے-بد قسمتی سے مسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک میں لوگ مارچ کر رہے تھے-عربوں کا رد عمل کمزور اور مایوس کن تھا-پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا غلبہ تھا-انڈونیشیا میں ڈھائی لاکھ مظاہرین تھے جو مسلمان دنیا میں سب سے بڑا مظاہرہ تھا- تحریک حملہ کو روک نہیں سکی کیوں کہ امریکہ نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ حملہ ضرور کر گا خواہ کچھ بھی ہو- اس کو کوئی نہیں روک نہیں سکتا-

مجھے کسی نے جنگ سے پہلے پوچھا تھا کہ 'کیا کوئی چیز جنگ کو روک سکتی ہے؟' میں نے جواب دیا کہ دو چیزیں جنگ کو روک سکتی ہیں، ایک امن کے لئے امریکہ میں عام ہڑتال، دوسرا ساری عرب دنیا میں 'انتفادہ'۔ ان میں سے کچھ بھی نہ ہوا۔ پس امریکہ نے عراق پر قبضہ کرلیا- بنیادی طور پر اس نے اپنی سامراجی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے اور دوسرا میں  کہتا ہوں

‘Likud faction’جو بش انتظامیہ میں اسرائیل اور اس کی ضروریات اور مفادات کے قریب ہے۔ بہت ساری وجوحات کی بنا پر انہوں نے اپنے ملک کے لئے یہ راستہ چنا اور اس  کی بہت کم مخالفت ہوئی-

صرف ایک ملک جس نے جنگ میں تاخیر پیدا کی وہ ترک پارلیمنٹ تھی، یورپینز سے زیادہ-ترک پارلیمنٹ کا یہ ووٹ کرنا کہ ' امریکی فوجوں کی لئے  ترک کی زمین استعمال نہیں ہو گی نے جنگ میں دو ہفتوں کے لئے تاخیر پیدا کردی- سو ترک عوامی نمائندوں کی تعریف کرنی چاہئے-

پس دونوں جگہوں پر کچھ بھی نہ ہوا- حسنی مبارک نے قابض فوجوں کو بغیر عوضانہ  لئے نہر سوئز سے گزرنے دیا- ساری گلف ریاستوں نے جنگ کی حمائت کی-اس خطہ  میں اب قطر میں امریکہ کا فوجی اڈہ ہے-میرے خیال میں یہ 1967 کی جنگ کے بعد عربوں کے لئے سب سے بڑادھچکا ہے-یہ بہت ہی بڑی شکست تھی اور اب اس کے فلسطین کے مسئلہ پر بہت گہرے اثرات ہوں گے-وہ اب فلسطین میں مذاہمت کو ختم کرنے کی لئے معتدل قیادت کو استعمال کرے گا- وہ چاہیں گے کہ فلسطینی اب خود فلسطینوں پر نظر رکھیں- صرف یہ بات اسرائیل تسلیم کرے گا اور اس کے عوض فلسطینیوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا-ان کے نقشہ میں امریکہ اور اسرائیل کے زیر سایہ ایک  فلسطین ہے- یہ بہت ہی ہیبت ناک صورت حال ہے اور ہم اس سے آنکھیں نہیں چرا سکتے-

سوال: ورلڈ سوشل فورم کا مستقبل کیا ہے؟

جواب ورلڈ سوشل فورم کو یہ بات سمجھنی چاہے کہ نیو لبرل ازم اور مارکیٹ کی مخالفت کافی نہیں ہے- انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جنگ نیو لبرل اکانومی کا دوسرا رخ ہے-آپ یہ عراق میں دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ نے جو تباہ کیا تھا وہ اب امریکن کمپنیاں تعمیر کرنے جا رہی ہیں- سو امریکن بمبار تباہ کرنے آتے ہیں اور امریکن فرمز انہیں دوبارہ تعمیر کرتی ہیں- یہ بہت ہی غیرمہذب اپریشن ہے۔  سو ورلڈ سوشل فورم کو بیک وقت

I M F, WTO, World Bank  کے تحت بنائی گئی نیو لبرل معاشی  پالیسیاں  اور دنیا میں امریکن فوجی اڈوں کے مخالفت تحریک چلانی ہو گی-اس وقت دنیا کے 190 ممالک میں سے امریکہ کی فوجی موجودگی 121 جگہ پر ہے -

ان کے خلاف تحریک چلانی پڑے گی کیوں کہ ان فوجی اڈوں کے خاتمہ کے بغیر دنیا میں جمہوریت نہیں آسکتی-ان فوجی اڈوں کا مقصد ان علاقوں کی حکومتوں کی  نیو لبرل پالیسوں کی حفاظت ہے-

سوال: امریکہ، پاکستان اور انڈیا پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات حل کریں-آپ کے خیال میں امریکہ یہ کیوں کر رہا ہے اور کیا امن کی کوئی امید ہے؟

جواب: میرےخیال میں اس  میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ خطہ میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی سے پریشان ہے- مت بولیں کہ عراق میں جنگ کا سرکاری جواز وہاں نام نہاد

Weapons of Mass Destruction(WMD) جو کہ وہاں  کبھی بھی نہیں تھے- لیکن  یہاں پر موجود ہیں۔ امریکن مسئلہ کو حل کرنا چاہئں گے- اس خطہ میں اپنے مفادات کو خطرہ کم کرنے کی لئے۔ یہ بات تصور کرنا کہ امریکن اپنے مفادات سے باہر کوئی بات کریں گے بیوقوفی ہے۔ وہ صرف اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے عمل کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے ریجن جنوبی ایشیا کو اپنے مسائل خود حل کرنا سیکھنا چاہئے-ہمیں باہر کے لوگوں کو اس پر عمل کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ ہم مسائل حل کر سکتے ہیں اگر ہم پرامن مذاکرات کریں-

انڈیا خطہ میں بڑی طاقت ہے اور اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں- کشمیر کے مسئلہ پر بہت بڑے فیصلہ کی ضرورت ہے-میں خود مختاری کے حق میں ہوں ۔انہوں [کشمیریوں] نے ان جذبات کا اظہار کیا ہے کہ انہیں پاکستان یا ہندوستان میں سے ایک کے ساتھ شامل ہونے  میں دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں کسی آپشن کی ضرورت نہیں ہے- وہ آزادی چاہتے ہیں-  انڈیا شائد اس آپشن کو مان لے- یہ بہتر ہوگا کہ اگر ہم آزاد، خود مختار یا نیم خود مختار کشمیر پر سوچیں جس کی ضمانت پاکستان، انڈیا اور چین دے- وہ اپنی فوج نہیں رکھنا چاہتے، وہ صرف خود مختاری چاہتے ہیں اور میرے خیال میں یہ ممکن ہوگا- لیکن یہ اپنے طور پر حل نہیں ہوگا- اس کو جنوبی ایشیا میں مجموعی صورت حال میں امن کے حل کا حصہ ہونا چاہئے- یہ بہت ہی اچھا ہوگا اگر جنوبی ایشیا کے لوگ اپنے مسائل خود حل کر لیں- دوسری طاقتوں کو اس میں ملوث کرنا عوام کے مفاد میں نہیں ہوگا-

سوال: 1971 اور 1997 کے درمیان الیکشن میں مذہبی پارٹیاں پاکستان میں ایک درجن سے زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکیں مگر اکتوبر 2002 کے الیکشن میں خاص کر فرنٹیر[خیبر پختون خوا] اور بلوچستان میں ا نہوں نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی- اس کامیابی کے کیا وجوہات ہیں؟

جواب: یہ دلچسپ بات ہے کہ مذہبی جماعتیں الیکشن میں 4/5 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکیں- وہ عوام میں کمزور مگر تنظیمی طور پر مضبوظ ہیں-اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جماعت اسلامی سب سے منظم سیاسی  پارٹی ہے۔ ابتدا میں مولانا مودودی نے حیدرآباد[دکن] میں کمونسٹ پارٹی کی تنظیم سے بہت کچھ سیکھا اور بائیں سے بہتر کام کیا-اس کے باوجود انہوں نے الیکشن میں کوئی خاطر خواہٰ کامیابی حاصل ںہ کی- آج کے اس خاص وقت میں ان جماعتوں کی کامیابی کی ایک وجہ ہے خاص وجہ ہے خاص کر فرینٹیر میں-

فضل الرحمان نے  الیکشن کے بعد کہا کہ وہ  الیکشن میں اپنی مذہبی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں جیتے- وہ اس لئے جیتے کہ انہوں نے امریکہ کی مخالفت کی- میرے خیال میں یہ بات درست ہے- یہ حقیقت ہے کہ  ایم ایم اے ملک میں ایک بڑی سیاسی قوت ہے جس نے افغانستان پر امریکہ کے قبضہ کی زبردست مخالفت کی۔ جس کی وجہ سے انہیں لوگوں نے پسند کیا- لوگ قبضہ کو پسند نہیں کرتے- نام نہاد سیکولر جماعتوں، پی پی پی اور مسلم لیگ نون اور  ملک کی دوسری قوتوں نے  امریکہ کی حمائت کی۔ انہوں نے فوجی حکومت  کی پالیسی اور اپنے آپ میں فرق ظاہر کرنے سے انکار کردیا جسکی وجہ سے انہیں نقصان ہوا-

اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذبی جماعتوں  کے پاس لوگوں کے لئے سیاسی اور سماجی ضروریات کا حل نہیں ہے۔ لوگ ان کے کام سے انہیں پرکھیں گے۔ اگر انہوں نے کام نہ کیا تو غالباْ اگلی دفعہ ہار جائیں گے۔

لیکن ہمیں کوئی شک نیں ہے کہ وہ کیسے جیتے-

 

قاضی حسین  احمد نے حال ہی میں کہا تھا کہ امریکہ سے لڑنے کے لئے ہمیں انڈیا سے دوستی کرنی چاہئے۔ یہ کبھی پہلے نہیں سنا مگر یہ ذہین تبصرہ ہے-

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی سامراج کے خلاف لڑنے کی رہنمائی مذہبی جماعتوں کی طرف سے آرہی ہے-

لبرلز کو خود فالج سا ہوگیا ہے اور سیکولر پارٹیاں کہیں نظر نہیں آرہے ہیں-

سوال: آپ کو کیسا لگا کہ آپ اپنے ہی ملک میں مہمانسپیکر کے طور پر دورہ کر رہے ہیں؟

جواب: پچھلی دفعہ میں نے عوام سے 1969 میں خطاب کیا تھا جب میں نے سارے پاکستان کا دورہ کیا تھا-اس وقت جب مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ تھا اور میں نے وہاں تقریریں کیں- پاکستان کے لئے بہت ہے تکلیف دہ وقت تھا- 1970 کے الیکشن کو قبول نہ کرنا بہت بڑی غلطی تھی-آپ بنگالیوں کو اپنے لیڈروں کو ووٹ دینے پر قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے-

بعد میں جنرل ضیا کے دور میں مجھے آنے نہ دیا گیا- اس کے بعد سے میں مسلسل پاکستان اپنے ماں،  باپ اور دوستوں کو ملنے آتا رہا ہوں –لیکن یہ بہت ہی نجی دورہ ہوتے تھے- جب اقبال فاونڈیشن نے مجھے تین لیکچر دینے کے لئے بلایا تو میں بہت متاثر ہوا-میں پوری دنیا میں لیکچر دیتا ہوں۔ میں امریکہ میں ہر ماہ تین، چار دفعہ لیکچر دیتا ہوں-

جو چیز لوگ  امریکہ کے بارے میں بھول  جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ گو امریکہ ایک بہت بڑی سلطنت ہے اور وہاں کی حکومت اس وقت اپنے سامراجی عزائم کو پورا کر رہی ہے- لیکن ایک اور امریکہ بھی ہے- مخالف تحریکوں کا امریکہ۔ بادی کا ایک بہت بڑا حصہ  لبرل، لیفٹ دانشور ہے جو امریکہ کی فرمانروائی  پالیسی کے خلاف ہے۔ سو جب بھی میں امریکہ میں خطاب کرتا ہوں تو یہ بڑی میٹنگزہوتی ہیں-سو جو میں امریکہ میں کرسکتا ہوں وہی پاکستان میں کروں تو بہت اچھا ہوگا-

سوال: اپنے ناولز اور حال ہی میں چھپنے والے کتاب Clash of fundamentalism میں  آپ ایک 'ثقافتی مسلم' کے طور پر ابھر کر آرہے ہیں-کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟ 

جواب: ہاں، میں مسلم تہذیب اور ثقافت میں پلا بڑھا ہوں اور میں اپنی ثقافت کے ساتھ شناخت کرتا ہوں- میں مذہبی آدمی نہیں ہوں- میں کبھی بھی ایسا نہیں رہا اور میرا خیال ہے کہ یہ ضروری بھی نہیں ہے-اور میں   Clash of fundamentalism میں، میں نے بہت ہی محبت بھرے انداز میں اسلام کی تاریخ بیان کی ہے، اس کی ثقافت۔ اس کی ثقافت میں بہت ہی گونا گوں،مختلف رنگ ہیں-یہ وہ تاریخ ہے جو کہ بچوں کو سکول میں پڑھانی چاہئے تا کہ بچے سمجھ سکیں  کہ اسلام میں سوائے  خالص مذہبی عبارت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے-

ہمارے پاس بہت جاندار ثقافتی تاریخ ہے اور اس تاریخ کو پھیلانا چاہئے تاکہ نوجوان سمجھ سکیں کہ وہ کس ثقافت کا حصہ ہیں اور ان کے پاس اپنی تاریخ پر فخر کرنے کی کیا وجوحات ہیں- جاہلانہ وجوہات کی وجہ سے نہیں- کیوں کہ اسلامی ثقافت نے درحقیقت یورپ کے تاریک دور میں روشنی پھیلائی اور وہ پل مہیا کیا جس سے یورپ کی نشاۃ ثانیہ ہو سکی- ساری دنیا اس کو سمجھتی ہے- لوگ اسے تسلیم کرنا پسند نہیں کرتے- لوگ اسے تسلیم کرنا نہیں چاہتے اسی لئے مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب بغداد میں وحشی دیکھ رہے تھے کہ لائبریری جلائی جارہی تھی اورعجائب گھروں کو لوٹا جا رہا تھا-

میں مسلسل سفر کرتا - بحث مباحثہ کرتا ہوں –کچھ دلیلیں، مذہی انتہا پسند استعمال نہیں کرتے ہیں کیوں کہ یا تو وہ نابلد ہیں یا اپنے مذہب کی تاریخ سے گھبراتے ہیں -

سوال: آپ نے شعوری سطح کی بات کی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے جا رہے ہیں- غریب اور امیر کے درمیان فرق پڑھتا جا رہا ہے-لوگ پھر بھی اس نظام کے خلاف کیوں نہیں اٹھتے ؟

جواب: لوگ محسوس  نہیں کر رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی متبادل ہے- سویٹ یونیں کی خامیاں اور خلا تھا اورسرمایہ داری سے پہلےکا چین،ان نظاموں کی موجودگی میں لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا تھا کہ ایک متبادل ہے-

اب بہت بڑی تحریک ہے جو کہ کہتی ہے کہ ایک  مختلف دنیا ممکن ہے لیکن عالمی سطح پر سماجی، اقتصادی ترقی سامنے  نہیں ہے کہ لوگوں کودکھایا جا سکے کہ  در حقیقت یہ ممکن ہے- سرمایہ داری ہر طرح سے طاقت ور ہے-اس کے پاس امریکی سلطنت کی صورت میں زبردستی تعمیل کرانے والی قوت موجود ہے جو دنیا پراقتصادی  نظام اور حکومت تبدیل کرنے کے لئے حملے کرتی ہے-یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ عراق میں بعث پارٹی ، گو سیاسی طور پر بہت مشتدد ، ظالم تھی لیکن اقتصادی طور پر اس نے لوگوں کی بھلائی کے لئے بہت کچھ کیا مثلاّْ جیسے ریاستی امداد وغیرہ-

یہ بہت المیہ کا دور ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں- بہت سارے لوگ غیر شعوری طور پر ایک بہتر دنیا کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کوئی متبادل نہیں دیکھتے ہیں- بائیں بازو کے دانشوروں کو متبادل پیش کرنا چاہئے-دلچپسپ بات یہ ہے کہ جہاں کچھ تجربات ہو رہے ہیں وہ لا طینی امریکہ ہے جہان حقیقت میں سارا بر اعظم

Washington Consensusکے خلاف  بغاوت کر رہا ہے-

میرے خیال میں ایک اور دنیا ممکن ہے مگر ہمیں اس کو ٹھوس طرح سے پیش کرنا ہوگا-اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے خیال جو کہ ہم سوچتے تھے کہ واپس نہیں آئیں  گے کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا-سوشلزم کی ایک نئی شکل، سماجی اور اقتصادی انصاف کی ایک نئی شکل کو واپس لا نا پڑے گا-کیوں کہ سماجی اور اقتصادی انصاف کے بغیر انسانی حقوق کچھ بھی نہیں ہیں-امرا کا معاشرہ پر کنڑول ہے-جہاں دولت میں اونچ نیچ ہے انسانی حقوق اپنے معنی کھو دیتا ہے-متحرک کارکنوں کو سماجی انصاف کو انسانی حقوق کا ایک بنیادی ستون بنانا ہوگا- اس کے بغیر آپ کو انسانی حقوق نہیں مل سکتے-

سوال: کیا آپ نے پاکستان واپس آکر سیاست میں حصہ لینے کا سوچا ہے؟

جواب: نہیں میں نے مختصر عرصہ کے  لئے 1969 میں سوچا تھا-لیکن پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد میں نے سب خواہشات ختم کر دیں-میں اپ کو بتاوں میں مکمل طور پر' بے گانہ، برگشتہ' ہوگیا تھا- میرے لئے وہ ایک عہد کا خاتمہ تھا-جس چیز نے میرے دل پر بہت گہرا اثر چھوڑا تھا- کیوں کہ میرے بنگالی دوست تھے جنہیں قتل کر دیا گیا تھا- میں 1969/1970 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس میں تھا-اس کے بعد میرے میں پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کی کوئی خواہش نہیں ہے-

اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں مجھے ابھی تین ناول لکھنے ہیں- میں نے ابھی ایک اور کتاب لکھنی ہے- مجھے تمام دنیا سے  ہر ہفتہ اوستاْ چالیس دعوت نامہ آتے ہیں- سو میں یہ اب کرنے میں خوش ہوں- میں پاکستانی سیاسیات کی  تاریک دنیا میں نہیں پھنسنا چاہتا- آپ ملک کے باہر سے دیکھیں تو آپ کا دل ڈوبنے لگتا ہے