؎ میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکاں میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے
ریاظ احمد کا ناول ’’شجرحیات‘‘ اسی پیرائے کا بیان ہے ۔ انہوں نے کہانی کے تارو پودکو بخوبی اپنے خاص دھیمی اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ایسے ہی شجرِحیات کی چھاؤں میں زندگی کا باقی بسر کروں۔
ریاظ احمد کون ہے ؟میں اسے تب سے جانتا ہوں جب کتابوں کا نیا نیا شغف ہوا تھا ۔۔۔دھان پان جیسی شخصیت ۔۔مسکراہٹ لبوں پر کھیلتی ہو ئی اور آواز میں ایک نرماہٹ ۔۔۔۔وہ خود کسی طلسمی کہانی کا کو ئی کردار دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔مرشد جیسی سوچ اور دوستوں کے لیے فکر مند ۔۔۔۔کئی ایک کتابوں کے بے مثال سرورق اس کی سوچ اور تخیل کا نتیجہ ہیں ۔۔۔گزشتہ کچھ برسوں سے ان کے ساتھ میرا تسلسل کے ساتھ رابطہ استوار ہے جہاں کہیں کسی بھنور میں ناؤ ڈوبتی ہے میں ریاظ صاحب کو پکارتا ہوں ۔۔تب وہ امید کا پیغام بن کر آتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ یہ کام کچھ اس طور ہوگا ۔۔کئی بار وہ میرے ساتھ بھی چل پڑے ۔۔۔کہ چلو کچھ کوشش کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔سوکام ہو جاتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔مجھے قطعی طور پر یہ اندازہ نہیں تھا کہ ریاظ احمد ایک منجھے ہوئے لکھاری بھی ہیں ۔ جب انہوں نے مجھے اپنا ناول ’’شجر حیات‘‘ پڑھنے کے لیے دیا تو میں ورطہ حیرت میں گم ہوگیا ۔۔۔۔اس ناول کے بارے میں دوستوں کی اپنی اپنی آراء ہیں ۔ لیکن میں یہ سوچتا ہوں کیا کوئی تخلیق کسی شحصیت سے چھن کر باہر آتی ہے اور اس کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔۔۔یہ بھی ایک طویل بحث ہے ۔۔’حُسن اظہار ہے ‘
میں نے ہمیشہ انہیں کسی نہ کسی کتاب کے سرورق کا مصور ہی جانا تھا۔۔۔ انہوں نے کم بیش دس ہزار کتابوں کے سرورق بنارکھے ہیں۔ ڈرامے لکھے۔ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے (لاہور) کے صدر ہیں۔ پاکستان مزدور کسان پارٹی کے دو سال تک صدر رہے۔ منسٹری آف انفارمیشن پاکستان سے ’’قائد تجھے سلام ‘‘ مضمون لکھنے پر ہنڈا سوک کار کا انعام حاصل کر چکے ہیں۔ الفریڈ ویبر کی کتاب ’’تاریخ فلسفہ‘‘ کا تدوین و ترجمہ کیا۔ ریاظ محض ایک مصور نہیں۔ ایک کہانی کار بھی ہیں، میں انہیں ایک مصور کے طور پر ہی جانتا تھا۔۔۔ ہمیشہ انہیں زوئے(ظ) والا ریاظ کہتا۔۔۔ جو ان کا سگنیچر بھی ہے اور اب حقیقی نام بن چکا ہے۔
زندگی کا پھیلا ہوا بیابان اور کہیں ایک تنہا شجر جس پر انواع واقسام کے دانش کے چمکتے ہو ئے موتی۔۔۔ یہ خواب نہیں، حقیقت ہے۔۔۔ یہ حرف و صوت کا افسانہ نہیں۔ اور نہ ہی لکیروں یا رنگوں کا جال ہے۔۔۔ کہانی تو کچھ اور ہے۔۔۔ ہم اس کی تلاش کر رہے ہیں۔ ہم اپنے اپنے مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ہم ہیں متاع کوچہ وبازار کی طرح۔ رنگ چہار جانب ہیں۔ رنگ، ہوا اور خوشبو۔ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔۔۔ ایک مسافر کارزار حیات میں قدم رکھتا ہے اور پھر اپنی موج مستی میں یہ سفر طے کرتا ہے۔ کچھ رنگ اچھالتا ہے کچھ گیت گنگناتا ہے اور کچھ لفظوں کے موتی پروتا ہے۔۔۔ زمانہ اس کو تاک رہا ہے۔ ہر زمانے کی اپنی اپنی حقیقت ہے۔۔۔
مرنجاں مرنج، دھان پان، فورتھ ائیر کے طالبعلم جیسے ریاظ احمد صدیوں سے ایسی ہی قدو قامت کے ساتھ آج بھی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ شائستہ مزاج۔۔۔ دھیمے سْروں میں بات کر نے والے۔۔۔ مسئلے کا حل تلاش کرنے والے۔۔۔ ہمیشہ سرگرداں اور مشتاق اور سراپا محبت۔
ناول ’’شجر حیات‘‘ کا انتساب کچھ یوں ہے
’’اپنی محبوب ماں کے نام۔ جس کی ذات اج بھی مجھ میں زندہ ہے ‘‘
اور یہ اس کائنات کی ابدی سچائی ہے۔۔۔۔
اس ناول کی کچھ سطریں :
’’چہروں پر لکھی تمام کہانیوں کی زبان اور رسم الخط ایک ہے۔‘‘
’’زندگی ہمیشہ اپنے عشاق پر اپنے بھید اور رمزیہ رنگ آشکار کرتی ہے۔‘‘
’’محبت کائنات کی سب سے بڑی دانائی ہے۔‘‘
’’جدائی کا پہلا نوحہ انسان نے اس دن گایا جس دن ایک انسان نے دوسرے انسان کو غلام بنا کر اْسے اْس کے پیاروں سے جدا کیا، یہ وہی دن تھا جس دن سے ہجر کے انگاروں کا ادب شروع ہوا۔‘‘
’’حْسن سچ کی روشنی ہوتا ہے جیسے ایک سچ دوسرے سچ کی ضد نہیں ہوتا اسی طرح آسمان میں چمکتا ہوا چاند بھی سچ ہے اور سمندر میں جھلملاتا چاند کا عکس بھی جھوٹ نہیں ہے۔‘‘
’’شجر حیات‘‘ سیدھے سبھائو کا ناول ہی نہیں ہے۔۔۔ میں اسے ناول سے ماورا کچھ الگ نام دوں گا۔۔۔ اس میں دلچسپی اور تجسس کے تمام عناصر موجود ہیں۔۔۔ مگر یہ ناول نہیں ہے۔۔۔ کچھ اور ہے بقول ہمارے گلزار
صرف احساس ہے یہ
روح سے محسوس کر و
پیار کو پیار ہی رہنے دو
کوئی نام نہ دو ‘‘
درحقیقت یہ کہانی ایک باغ کی کہانی ہے جو بہت سے مخفی حقائق کو عیاں کرتا ہے۔۔۔ سب کردار اتفاقیہ ملتے ہیں۔ زندگی بھی تو ایک حسین اتفاق ہے۔۔۔
کہانی محبت ،ہوا اور خوشبو کی مانند ہوتی ہے۔ جو کہیں بھی جا سکتی ہے۔۔۔ وہ حدودو قیود کی پابند نہیں ہوتی ہے۔ ناول کی کہانی موت، مقدر، اور محبت کا بیانیہ ہے۔ موت کے بارے میں لکھتے ہیں’’موت پہیلی نہیں، خوف ہے، صدیوں میں گندھے ہوئے نامعلوم کا خوف، زندگی موت کے اصول پر نہیں، نفی کی نفی کے اصول پر قائم ہے، ایک بیج اپنا وجود کھو کر مرتا نہیں، ایک نیا وجود پا لیتا ہے۔ موت کو ہم انتقال بھی کہتے ہیں۔‘‘ مقدر کے بارے میں کہتے ہیں’’ہمارا مقدر صرف ہمارا مقدر نہیں ہوتا، ہمارے مقدر میں ہمارے خاندان، سماج، دنیا اور کائنات کا مقدر گندھا ہوتا ہے، بالکل ایسے جیسیایک پْھول کا مقدر ہوا، پانی، مٹی اور روشنی سے جڑا ہوتا ہے۔
محبت اْن کے نزدیک کائنات کی سب سے بڑی دانائی ہے۔
کہانی کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ اس کی آخری سطریں کچھ یو ں ہیں،
زندگی، زمین کی لاڈلی بیٹی، خوشبوئوں کی مہکتی کلی، لامحدود شکلوں، رنگوں، آوازوں اور ذائقوں کا رس بھرا جادو، حیرتوں بھرا رنگین معمہ، کائنات کی ابدی حقیقت ، مسلسل بے کلی میں حوصلوں کا بہتا دریا، ایسے مست، جیسے یقین ہو کہ دریا ہمیشہ ہمیشہ بہتا رہے گا، جیون کی رنگ رنگیلی نائو صدا بہتی رہے گی، شعور کے بادبان ہوائوں کو گھوڑے بنا کر آگے بڑھتے رہیں گے، اسباق محبت کے گم گشتہ باب دریافت ہوتے رہیں گے اور زندگی، ممکن اور ناممکن سے بے پروا امکان کی انگلی پکڑے ہمیشہ مسکرانے پر اصرار کرتی رہے گی۔
سو یہ سچ کی جیت ہے۔ میرے دوست ریاظ احمد تمہارا یہ ناول ’’شجر حیات ‘‘ ایک رمزیہ تمثیل ہے۔ ایک مکالمہ ہے۔۔۔ کسی خیال یا خواب کی بازیافت ہے۔ مجھے تویہ تمہاری کہانی اپنی کہانی لگی ہے۔۔۔ اور یہی کسی کامیاب تخلیق کی نشانی ہوتی ہے۔۔۔
مجھے ریاظ احمد سے کئی ایک سوالات کرنے ہیں اور ان کے بارے میں کچھ اس کی رائے دریافت کرنا ہے ۔۔۔۔انسان کو مکمل طور سے نہیں جانا سکتا اور نہ ہی وہ باآسانی یک بیک منکشف ہوتا ہے ۔۔۔مگر ریاظ احمد ان سے بہت مختلف ہے ۔۔۔مجھے شدت کے ساتھ اس کی آئندہ تخلیق کا انتظار ہے ۔۔مجھے پورا یقین ہے وہ اس کی نوک پلک کسی محبوب کے عارض و رخسار کی طرح سنوارنے میں میں مشغول ہوگا ۔۔
یار ریاظ احمد ۔۔۔ایک بڑا لاجواب جملہ پڑھا ہے ’’محبت سہلانے کا نام ہے دُکھانے کا نہیں ‘‘۔۔جب کبھی زمانے نے دکھ بہم دئیے ہم تمہارے در پر سہلانے کا کام لینے پہنچ گئے لیکن ہمیشہ دیکھا ہے وہاں تو لائن لگی ہے ۔۔اپنی بار ی کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔