محمود مولوی ان متعدد پارٹی رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے 9 مئی کے پرتشدد فسادات کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کا عہدہ چھوڑ دیا تھا اور قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔
محمود مولوی نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور عامر کیانی کے ہمراہ جیل میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات خوش آئندہ تھی اور اس کا نتیجہ دو دن میں سامنے آجائے گا۔
پی ٹی آئی کے سابق رہنما کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پارٹی کے دیگر سابق رہنما فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور عامر کیانی بھی ہیں جنہوں نے قید سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کسی کی ہدایت پر نہیں کی۔
ذرائع کے مطابق، قریشی نے اپنی وفاداریاں "تبدیل" کرنے کے لیے بدھ کے روز اڈیالہ جیل میں پارٹی کے سابق بڑے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد فواد چوہدری نے کہا کہ 250 ملین لوگوں کو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
فواد چوہدری کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے ان کی شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
محمود مولوی نے کہا کہ کسی کو سیاست سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ عام انتخابات اکتوبر میں ہوتے نظر آرہے ہیں۔ 9 مئی کے بعد صورتحال بدل گئی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کا سائیڈ میں ہونا مسئلےکا حل نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کہا تھا کہ ان کے نااہل ہونے کی صورت میں شاہ محمود پارٹی کی سربراہی کریں گے۔ شریف بھی نااہل ہوئے تھے اور بے نظیر بھٹو نے بھی پارٹی امین فہیم کے حوالے کی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان کو گرفتار ہونے سے پہلے پارٹی پر کنٹرول چھوڑ دینا چاہیے؟ اس پر تو محمود مولوی نے جواب دیا کہ عمران خان خود ہر چیز کا جائزہ لے رہے ہیں۔ چونکہ میں اب پارٹی کا رکن نہیں ہوں۔ میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ پی ٹی آئی کے 100 سے زیادہ رہنما علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔عمران خان اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ جو بھی پی ٹی آئی کی نامزدگی حاصل کرے گا وہ الیکشن جیت جائے گا۔
ان کے بقول بعض قانون ساز پارٹی کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہیں اور دیگر پہلے ہی دوسری پارٹیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا "ایک دوڑ میں کئی گھوڑے مقابلہ کرتے ہیں؛ کچھ کو دوڑ سے پہلے ہی باہر نکال دیا جاتا ہے‘ ۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا ہی ہے۔