کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ فروری کے مہینے میں چار افراد کی نعشیں ملی ہیں جبکہ 48 خاندانوں نے کمیشن کے پاس جبری گمشدگی کی رپورٹس درج کی ہیں۔ کمیشن نے اپنے دستاویزات میں کہا ہے کہ فروری کے مہینے میں ملک کے مختلف شہروں میں 666 عدالتی کارروائیاں ہوئی جن میں 322 وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں، 68 لاہور میں، 68 پشاور میں جبکہ 208 کراچی میں ہوئیں۔
کمیشن نے دعوی کیا ہے کہ فروری کے مہینے میں 42 گمشدہ افراد کا سراغ لگایا گیا جن میں سے 8 افراد حساس اداروں کے زیرنگرانی حراستی مراکز میں قید ہیں۔
کمیشن نے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے اسحاق محمد کا کیس بھی اُٹھایا، کمیشن کے سامنے اسحاق محمد کے والد پیش ہوئے اور انھوں نے کمیشن کو بتایا کہ ملزم اسحاق محمد سال 2016 میں اپنے 51 دوسرے ساتھیوں سمیت افغانستان سے واپس لوٹے اور افواج پاکستان کے سامنے پیش ہوئے اور وہ اس وقت سوات کے حراستی مرکز پیتوم میں قید ہیں جبکہ ہم 5 بار ان سے ملے بھی ہیں۔
کمیشن نے شانگلہ سے ہی تعلق رکھنے والے عمر حیات کا کیس بھی اُٹھایا جس پر سرکاری اہلکاروں نے کمیشن کو بتایا کہ ملزم عمرحیات اس وقت حساس اداروں کے حراستی مرکز لکی مروت میں قید ہیں اور ان کے ساتھ ملاقات کے لئے ان کے خاندان کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔
کمیشن نے سوات سے تعلق رکھنے والے انور علی کے کیس پر بھی پیشرفت کی جبکہ سرکاری اہلکاروں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ملزم انور علی اس وقت حراستی مرکز فیتوم سوات میں قید ہے اور ان کے خاندان کے افراد ان کے ساتھ مل سکتے ہیں۔
کمیشن نے ہنگو سے تعلق رکھنے والے شہاب الدین کے کیس پر بھی کارروائی کی جبکہ سرکاری اہلکاروں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ملزم شہاب الدین اس وقت حراستی مرکز کوہاٹ میں قید ہے اور ان کے فیملی کو ملاقات کے لئے تعاون فراہم کیا جائے گا۔
کمیشن نے لاہور سے تعلق رکھنے والے بلاول حسین کا کیس بھی سامنے لایا جس پر کمیشن کو ان کے خاندان نے بتایا کہ بلاول حسین کو کچھ سال پہلے سرکاری اہلکاروں نے اُٹھایا تھا جس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ اس وقت بہاولپور میں قید ہے جبکہ ان کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پانچ سال کی سزا سنائی ہے۔ کمیشن نے لاہور سے تعلق رکھنے والے حمید اللہ اور مستجاب شاہ کے کیسز بھی اُٹھائے جس پر سرکاری اہلکاروں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ملزمان پر اس وقت فوجی عدالتوں میں مقدمے چل رہے ہیں۔
کمیشن نے پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد عامر کا کیس بھی اٹھایا جس پر کمیشن کو ان کے والد نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سال 2017 میں جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا اور سال 2019 میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ اس وقت حراستی مرکز لکی مروت میں قید ہے جس کے بعد دو بار ہم نے ان سے ملاقات کی۔
کمیشن نے ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے محمد ذاکر کا کیس بھی سامنے لایا جس پر سرکاری اہلکاروں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ملزم اس وقت حراستی مرکز کوہاٹ میں قید ہے۔ کمیشن کے سامنے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارے جانے والوں کے لواحقین بھی پیش ہوئے اور کمیشن کو بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد جھڑپوں میں مارے گئے ہیں لہذا ان کے کیسز بند کئے جائیں۔
کمیشن کے سامنے سوات سے تعلق رکھنے والی نور ہادیہ بھی پیش ہوئی جس نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ان کے خاوند حضرت شاہ کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف ایک آپریشن میں مارے گئے ہیں جس پر کمیشن نے ان کا کیس خارج کیا۔ کمیشن کے سامنے شانگلہ سے تعلق رکھنے والی نور جہاں بھی پیش ہوئی جنھوں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا ریاض محمد کمال مختلف قسم کی دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث تھا اور ان کو شانگلہ میں ایک جھڑپ کے دوران مارا گیا جبکہ ان کو بتایا گیا کہ ان کو شانگلہ میں کسی مقام پر دفن کیا گیا ہے۔
کمیشن نے پنجاب کے شہر مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے امیر معاویہ کا کیس بھی سامنے لایا جس پر سرکاری اہلکاروں نے کمیشن کو بتایا کہ ملزم پر مختلف قسم کے کیسز درج تھے اور ان کو ایک جھڑپ میں مارا گیا ہے۔ کمیشن نے حافظ محمد اکرم سکنہ لیہ کا کیس پر بھی پیش رفت کی جس پر ان کے خاندان والوں نے کمیشن کے سامنے مؤقف اپنایا کہ ان کے بھائی CTD کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوئے۔ کمیشن نے لیہ سے تعلق رکھنے والے عابد حسین کا کیس بھی سامنے لایا جس پر کمیشن کو پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ ملزم عابد حسین گجرانوالہ میں ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں۔
کمیشن کے فروری تک کے اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اس وقت حساس اداروں کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں 822 افراد قید ہے جن میں 82 کا تعلق پنجاب سے، 33 کا تعلق سندھ سے، 619 کا تعلق خیبر پختونخوا سے، 17 کا تعلق اسلام آباد سے، 69 کا تعلق سابقہ فاٹا سے، ایک کا تعلق آزاد جموں اینڈ کشمیر سے، ایک کا تعلق گلگت بلتستان سے جبکہ بلوچستان کا کوئی بھی شخص اس وقت حساس اداروں کے زیر نگرانی حفاظتی مرکز میں قید نہیں۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں جبری طور پر گمشدہ افراد کا معاملہ سامنے آیا جس پر بلوچستان کے کچھ اسمبلی ممبران نے واضح کیا کہ کمیشن کے اعداد و شمار ملک کے جبری گمشدگیوں کے صحیح اعداد و شمار سے مخلتف ہیں، جس پر کمیٹی نے جبری طور پر گمشدہ افراد کے کمیشن کے اہلکاروں کو آئندہ اجلاس میں بریفینگ کے لئے طلب کیا۔
کمیشن ملک میں جبری طور پر گمشدہ افراد کے نعشوں کے حوالے سے اپنے اعداد و شمار میں واضح کرتی ہے کہ ملک میں 2011 سے اس وقت تک 213 افراد کی نعشیں ملی ہیں جن میں 66 کا تعلق پنجاب سے، 53 کا تعلق سندھ سے، 48 کا تعلق خیبر پختونخوا سے، 28 کا تعلق بلوچستان سے، 07 کا تعلق اسلام آباد سے، 09 کا تعلق سابقہ فاٹا سے جبکہ دو افراد کا تعلق آزاد جموں اینڈ کشمیر سے ہے۔
کمیشن نے 2011 سے اب تک واپس اپنے گھروں کو لوٹنے والے افراد کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت تک 2016 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جبکہ 6604 خاندانوں نے جبری گمشدگیوں کے رپورٹس درج کئے ہیں جن میں 4476 کیسز پر کارروائیاں ہوئی ہیں۔