باقی تمام رشتے وقتی اور کچے دھاگوں سے بندھے ہوتے ہیں۔ اس لئے عالمی سیاست میں مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتے۔ جو آج آپ کے ملک کا دوست ہے عین ممکن ہے اس کے قومی مفادات کل اسے آپ کے دشمن گروپ میں لے جائیں۔ یہی چیز شکوک کی فضا اور ذاتی مفادات کے ماحول کو جنم دیتی ہے۔ عالمی سیاست کی یہی فطرت طاقتور ممالک کے مابین کشمکش اور مقابلے کو محض شدت ہی نہیں بخشتی بلکہ مزید کانٹے دار بناتی ہے۔
مشہور ماہر سیاسیات فرانسز فوکویاما نے پہلی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1992 میں ایک کتاب مرتب کی "تاریخ کا خاتمہ اور آخری انسان"—The End of History and the Last Man۔
اس کتاب میں فوکویاما نے پیش گوئی کی کہ سرد جنگ کے خاتمے اور مغرب کے جیت جانے کے بعد جمہوریت سب سے بہترین سیاسی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام سب سے اعلیٰ معاشی نظام ثابت ہوگا۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ معیشت سے بہتر متابدل نظام اس دنیا میں کبھی نہیں آسکے گا۔ لہذا لبرلزم تاآخر زندہ اور ہمیشہ کے لیے سرخرو رہے گا۔ باقی تمام "ازمز" ناکام ثابت ہونگے۔ فوکویاما کے اس دعویٰ کو شروع میں بہت پزیرائی ملی۔ لیکن اکیسوی صدی کے آغاز میں ابھرتی ہوئی چین کی معیشت، مغربی طاقتوں کی تنزلی، اور یک قطبی طاقت سے کثیر قطبی طاقتوں کی طرف تبدیلی نے اس دعوی کو رد کر کے دوسری سرد جنگ کی بحث کو جنم دیا۔
روس کا یوکرین پر حملہ کرنا اس دوسری سرد جنگ کے تصور کو مزید تقویت بخشے گا۔ اس نئی سیاسی شطرنج میں عالمی طاقتیں، بالخصوص امریکہ اور چین، اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے شدید تگ ودو میں مگن ہیں۔
سیاسی ماہرین اب تک چین اور امریکہ کو ہی اس نئی سیاسی کشمکش کے مہرے قرار دے رہے تھے لیکن بڑھتے ہوے سٹریٹجک اثرورسوخ کے بعد، روس اس سیاسی دھڑے کا تیسرا اہم کھلاڑی ثابت ہوگا۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ روس اپنی قریبی سرحدوں کے علاوہ باقی براعظموں کی علاقائی سیاست کو کس قدر اثر انداز کرے گا۔
بہرحال اکیسویں صدی کے سیاسی ادب پر امریکہ اور چین کے "مقابلے" کا غلبہ ہے۔ یہ مقابلہ تقریباً ہر شعبے میں نظر آئے گا۔ دونوں مماملک ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برساتے ہوے نظر آئیں گے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ اس کا سیاسی، معاشی اور ملٹری تسلط برقرار رہے۔ جبکہ چین امریکہ کے اس تسلط کا خاتمہ چاہتا ہے اور عالمی سیاسی ساخت اس انداز میں ترتیب دینا چاہتا ہے جو کہ چین کے قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے ارکان کی طرف سے جاری کردہ برسلز سمٹ کمیونیک میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور اس کی بین الاقوامی پالیسیاں اتحاد کے لئے سنگین چیلنجز کا باعث بن رہی ہیں۔
کمیونیک نے اس بات پر زور دیا کہ اتحاد اس چیلنج سے اجتماعی حکمت عملی سے نمٹے گا۔ اسی طرح حال ہی میں شی-پوتن مشترکہ اعلامیہ میں روس اور چین نے مغربی قوتوں پر تنقید کرکے ایک دوسرے کا خارجی محاذ پر ساتھ دینا، موجودہ مغربی تسلط کا خاتمہ کرنا اور ایسا سیاسی نظام ترتیب دینا جو دونوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے کا عزم کیا۔
ممتاز مغربی سکالر جان میرشئمر، جنہوں نے جارحانہ حقیقت پسندی کا نظریہ پیش کیا، اپنے حالیہ مضمون The Inevitable Rivalry" میں دعویٰ کرتے ہیں کہ چین اور امریکہ ایک نئی سرد جنگ میں بندھے ہوئے ہیں اور اس سرد جنگ کے زور پکڑنے کا بھرپور امکان ہے۔
میرشئمر اپنے ساتھی حقیقت پسندوں کی طرح، امریکہ کے پالیسی سازوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ آزادانہ پسندوں کے ذریعے گمراہ ہو رہے ہیں، جنہوں نے چین کو ایک لبرل مارکیٹ میں شامل کرکے چین کو اقتصادی طور پر مضبوط کیا۔
اگر امریکہ حقیقت پسندانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتا تو آج نتائج اس کے برعکس ہوتے۔ چین ابتدائی طور پر ایشیا پر غلبہ حاصل کرنے اور آخرکار عالمی افق پر ایک طاقتور اور بااثر ریاست بننے کی کوشش کرے گا۔
میرشئمر قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے احساس پر زور دیتے ہیں جو چین کو ایشیا میں بالعموم اور مشرقی ایشیا میں خاص طور پر بالادستی کا رویہ ظاہر کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ میئر شیمر کے مطابق دنیا کی ساختی قوتیں دونوں ریاستوں کو اس کشمکش کے گرداب میں شامل ہونے پر مجبور کر رہی ہیں۔
اس سیاسی کشمکش میں ناصرف چین اور امریکہ بری طرح شامل ہونگے بلکہ بڑی اور چھوٹی ریاستیں بھی اس میں حصہ لیں گی۔ کرٹ کیمبل اور ایلی راٹنر نے ایک کالم “The China Reckoning” میں لکھا ہے کہ امریکی سفارت کاری اور امریکی فوجی طاقت سے چینی خطرے کو کم کرنا اور چین کو ایشیا میں امریکی بالادستی کو چیلنج نہ کرنے سے روکنا تھا۔ لیکن امریکہ ایسا کرنے میں ناکام رہا۔
ایک دوسرے پر الزام تراشی اور مختلف شعبوں میں مسابقت کی چنگاریاں ممکنہ طور پر چین اور امریکہ کو دوسری ریاستوں کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور کر دیں گی۔ صدر جوبائیڈن، صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد، اپنی ایشیا کی حکمت عملی میں پرانے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر بنانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری طرف چین ناصرف پاکستان اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے بلکہ چین کی قیادت میں شنگھائی تنظیم برائے تعاون(SCO) اور ایشیا انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک AIIB ( جیسی تنظیموں اور اداروں کی تعمیر اور ڈھانچے میں بھی کافی وسائل َصرف رہا ہے۔
مشرقی ایشیا میں چین کی خود مختاری کے دعوے، اور بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ مشرقی چین کے میں باقاعدہ بحری مشقوں کا انعقاد اتحاد کے نظام کو ایک نئی سطح پر لے جا سکتا ہے۔
جس تیزی کے ساتھ عالمی سیاست کا درجہ حرارت بڑھتا چلا جا رہا ہے، اس رفتار کے ساتھ عالمی طاقتوں کے سیاسی دنگل میں اپنا تسلط قائم کرنے کا مقابلہ بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کی چنگاریاں بلاشبہ دنیا کے ہر کونے تک پہنچیں گی۔